بنیاد کچھ تو ہو
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو! فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف تھا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں، بنیاد کچھ تو ہو
گر تن نہیں، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد! کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو، کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
منٹگمری جیل 13 اپریل 55ء
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment