Tuesday, 28 October 2014

بنیاد کچھ تو ہو

بنیاد کچھ تو ہو

کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو! فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف تھا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ‌ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں، بنیاد کچھ تو ہو
گر تن نہیں، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد! کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو، کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو

منٹگمری جیل 13 اپریل 55ء

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment