Wednesday 29 October 2014

حسن اور موت

حسن اور موت

جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو
فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں
خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار نے جسے خونِ جگر سے پالا ہو
وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں
ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے
اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے
کئی دلوں کی امیدوں کا جو سہارا ہو
فضائے دہر کی آلودگی سے بالا ہو
جہاں میں آ کے ابھی جس نے کچھ نہ دیکھا ہو
نہ قحط عیش و مسرت، نہ غم کی ارزانی
کنارِ رحمتِ حق میں اسے سلاتی ہے
سکوتِ شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی
طواف کرنے کو صبح بہار آتی ہے
صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment