Friday, 31 October 2014

سراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے

سُراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
یہ کون چھپ گیا صحراؤں میں بُلا کے مجھے
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بھُول جاتا، مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا
مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزما کے مجھے
جو اپنے لوگوں میں میری ہنسی اڑاتا رہا
قریب آیا تو رویا گلے لگا کے مجھے
میں اپنی قبر میں محوِ عذاب تھا، لیکن
زمانہ خوش ہوا دیواروں پر سجا کے مجھے
یہاں کسی کو کوئی پوچھتا نہیں آزرؔ
کہاں پہ لائی ہے اندھی ہوا اڑا کے مجھے

فریاد آزر

No comments:

Post a Comment