Friday 31 October 2014

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی 
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہوکار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال مہینے دن لوگو
پر سود بیاج کے بِن لوگو
ہاں اپنی جان کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساھو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں بھی نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانیں ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے دھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں سود بیاج بھی دے لیں گے
ہاں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون تمہارا نام ہے کیا
کچھ ہم سے تم کو کام ہے کیا
کیوں اس مجمعے میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو کچھ لائی ہو
یا کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لئے
سب عمر کی نقدی ختم کئے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں کچھ رات گریں
یہ اپنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانیں ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب نے ہم کو بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں ہم
تم سے نہ ملاقات کریں
کیا بانجھ برس کیا اپنی عمر کے پانچ برس
تم جان کی تھیلی لائی ہو کیا پاگل ہو
جب عمر کا آخر آتا ہے ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی نرالی ہے، ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا، ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا
کیا سود بیاج کا لالچ ہے، کسی اور اخراج کا لالچ ہے
تم سوہنی ہو من موہنی ہو، تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس یہ چار برس چِھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے تھے جتنے ساھو کار گئے
بس یہ اک ناری بیٹھی ہے یہ کون ہے کیا ہے کیسی ہے
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں گستاخ انکھیاں کتھے جا لڑیاں
ہم قرض تمہارا لوٹا دیں گے کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعتِ ماہ و سال نہیں وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
جو اپنے جی میں اتار لیا لو ہم نے تم سے ادھار لیا

ابن انشا

No comments:

Post a Comment