Tuesday 28 October 2014

اقبال آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر

 اقبال

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا

اب دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
وہ اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کی لَے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں
اس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال
اس کا وفور اس کا خروش، اس کا سوز و ساز
یہ گیت مثلِ شعلۂ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
جیسے چراغ وحشتِ صرصر سے بے خطر
یا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment