ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھیں تِری انجمن سے پہلے
سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرم سخن سے پہلے
جو چل سکو تو چلو کہ رہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے
نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری
کرے کوئی تیغ کا نظارہ، اب اُن کو یہ بھی نہیں گوارا
بضد ہے قاتل کہ جانِ بسمل فگار ہو جسم و تن سے پہلے
غرورِ سر و سمن سے کہہ دو کہ پھر وہی تاجدار ہوں گے
جو خار و خس والئ چمن تھے عروجِ سرو و سمن سے پہلے
ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے دردِ دل ہے
زباں سنبھالیں کہ دل سنبھالیں، اسیر ذکر وطن سے پہلے
(حیدرآباد جیل ١٧، ٢٢ مئی ٥٤ء)
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment