Tuesday 28 October 2014

پھر لوٹا ہے خورشید جہانتاب سفر سے

پھر لوٹا ہے خورشیدِ جہاں تاب سفر سے
پھر نورِ سحر دست و گریباں ہے سحر سے
پھر آگ بھڑکنے لگی ہر سازِ طرب میں
پھر شعلے لپکنے لگے ہر دیدۂ تر سے
پھر نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو
کچھ کہتی ہے ہر راہ ہر اک راہگزر سے
وہ رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل ہوئی دیوارِ قفس حدِ نظر سے
ساغر تو کھنکتے ہیں شراب آئے نہ آئے
بادل تو گرجتے ہیں گھٹا برسے نہ برسے
پاپوش کی کیا فکر ہے، دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment