چشمِ میگوں ذرا ادھر کر دے
دستِ قدرت کو بے اثر کر دے
تیز ہے آج دردِ دل ساقی
تلخئ مے کو تیز تر کر دے
جوشِ وحشت ہے تشنہ کام ابھی
میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کوقسمت سے بے خبر کر دے
لٹ رہی ہے مری متاعِ نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے
فیضؔ تکمیلِ آرزو معلوم
ہو سکے تو یونہی بسر کر دے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment