یہ جو باقی ہے محبت کا حوالہ پاگل
یہ حوالہ مِری راتوں کا اجالا پاگل
اتنا آساں نہیں دل سے بُھلانا تجھ کو
کیسے پُھوٹے گا بھلا آنکھ کا چھالا پاگل
لوگ بچھڑے ہیں جو مخلص تھے دعاؤں جیسے
ایسے نقصان کا مشکل ہے ازالہ پاگل
یہ جو باقی ہے محبت کا حوالہ پاگل
یہ حوالہ مِری راتوں کا اجالا پاگل
اتنا آساں نہیں دل سے بُھلانا تجھ کو
کیسے پُھوٹے گا بھلا آنکھ کا چھالا پاگل
لوگ بچھڑے ہیں جو مخلص تھے دعاؤں جیسے
ایسے نقصان کا مشکل ہے ازالہ پاگل
بھلا تو اور اے ظالم بھرے دم میری الفت کا
غضب کی تیری چالیں ہیں، یہ فقرا ہے قیامت کا
لگا کر دل ہوا ہے سامنا لاکھوں مصیبت کا
ستم ہوتا ہے آ جانا حسینوں پر طبیعت کا
مئے گلرنگ سے سیراب کر دے جلد اے ساقی
تِری ڈیوڑھی پر آیا ہوں میں پیاسا ایک مدت کا
جب مجھ پہ تیری آنکھوں کا سارا بیاں کُھلے
اس وقت جانے جان کا خیمہ کہاں کھلے
سر بستہ ہے ہزاروں برس سے جہاں کا راز
بندِ قبا تو کھول کہ مجھ پر جہاں کھلے
الفت دل خراب کو ہے تیرے بام سے
ورنہ تو ایک عرصہ ہوا بیڑیاں کھلے
اک منتظر شباب ہے جوبن کا منتظر
یعنی حسین خواب ہے جوبن کا منتظر
آنے لگی ہے عشق پہ میرے بہار جو
لگتا ہے اک سراب ہے جوبن کا منتظر
کھلنے کو بے قرار ہے گلشن میں تازہ گل
دیکھو عدو جناب ہے جوبن کا منتظر
دفعتاً گال پہ اک بوند گِری، ٹُوٹ گئی
کیسے خاموش چھناکے سے ہنسی ٹوٹ گئی
کون سمجھاتا کہ یوں وقت کہاں لوٹتا ہے
سُوئیاں اتنی گُھمائیں کہ گھڑی ٹوٹ گئی
چاپ لگتی رہی قدموں کی، ہتھوڑوں کی طرح
تُو گیا اور مِرے گھر کی گلی ٹوٹ گئی
کتنا دلکش خیال بنتا ہے
دودھیا ہو رہا ہے منظر یہ
ہاتھ میں چائے کی پیالی ہے
درمیاں بھاپ کی حسین لپک
ساتھ تم اور شام سردی کی
کتنا دلکش خیال بنتا ہے
کیوں اتنی رکاوٹیں ہیں میرے اور اس کے بیچ
بے وجہ عداوتیں ہیں میرے اور اس کے بیچ
راتوں کو ہوئی اس پہ اٹھ اٹھ کے شاعری
چند غزلی عبادتیں ہیں میرے اور اس کے بیچ
میرے اور اس کے بیچ کہنے کو کچھ نہیں
چند ایک وضاحتیں ہیں میرے اور اس کے بیچ
محبت کا اثر ہے کیمیائی
جلانے کے عمل کو آکسیجن تیز کرتی ہے
بھڑک اٹھتا ہے دامن ہائیڈروجن کا حرارت سے
مگر جب پیار کے رشتے سے جڑ جائیں
خنک تاثیر پانی کی بجھا دیتی ہے آتش کو
بھڑکتا سوڈیم دیکھو کلوریں کی جدائی میں
ابھی تم کو مجھ سے ضرورت پڑی ہے
ابھی راہ سے راہ بھی تو آ کے جڑی ہے
ابھی شاخ در شاخ پتے ہرے ہیں
ابھی پھول کلیوں کی مہکی لڑی ہے
ابھی مسکراہٹ، ابھی دل نوازی
ابھی سج سے دھج پر محبت کھڑی ہے
رُت ہو برہم بھی سرِ دست نہیں لگتا ہے
کچھ درختوں کو سدا بخت نہیں لگتا ہے
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چاہے مناجات لیے
ہم فقیروں کے لیے تخت نہیں لگتا ہے
بات ہی عشق میں بنتی ہے بگڑ جانے سے
یہ وہ مرہم ہے جو بر وقت نہیں لگتا ہے
تِری گلی میں دوپہریں سبھی مناؤں گا
بدن کو تیری محبت میں یوں جلاؤں گا
تمہارے شہر میں آؤں گا لوٹ کر، لیکن
کسی بھی پھول کی خوشبو نہیں چُراؤں گا
وہ فاختہ جو کبھی آئے میرے گھر کی طرف
میں پیڑ بن کے گلے سے اسے لگاؤں گا
عجز سے رتبہ بڑھا وہ تِرے شیدائی کا
رشک خورشید بنا داغ جبیں سائی کا
کہتے ہیں جس کو قیامت ہے کرشمہ تیرا
حشر کیا چیز ہے مجمع ہے تماشائی کا
آئینہ خانے میں جاتے ہو سنورنے کے لیے
دیکھو دعویٰ نہ غلط ہو کہیں یکتائی کا
محبتوں کی وسعتیں، خیال اُس سے پوچھنا
پھر اس کے بعد دفعتاً زوال اس سے پوچھنا
ہنسانا اس کو پہلے تم محبتوں کے ذکر سے
ہنسی میں غم کو ڈھونڈنا ملال اس سے پوچھنا
نظر بچا کے دیکھنا وہ کپکپاتے ہونٹ تم
مِری خودی پہ جب کوئی سوال اس سے پوچھنا
کمال فن ہے
چمکتی آنکھوں میں درد بھر کے
ہر ایک آنسو کو ضبط کر کے
سلگتے خوابوں کی راکھ لے کر یوں اپنی آنکھیں اجال رکھنا
کمال فن ہے
بڑی سہولت سے سرخ آنکھوں کی سرحدوں تک
ہتھیلی پہ ہر اک لمحہ نہ تم جلتا دِیا رکھنا
محبت بانٹنا لیکن نہ امید و صِلہ رکھنا
ہیں نازک آبگینے یہ نہ ان کو ٹھیس لگ جائے
ذرا سا سیکھ لو خوابوں کو آنکھوں میں چھپا رکھنا
ابھی آغاز الفت ہے ابھی سے تھک گئے ہو تم
بڑی پُر پیچ راہیں ہیں ذرا سا حوصلہ رکھنا
فقیر زادی
میں اپنا سب کچھ لُٹا چکا ہوں
میں تیرے کاسے پہ اپنا کاسا
اُلٹ کے دُنیا بنا چکا ہوں
فقیر زادی
میں آج تک جس ادھُورے پن کی مسافتوں میں
سیاہ سنگلاخ راستوں پر
کسی درخت سے جب پنچھی پیار لیتے ہیں
پرانے زخم نیا روپ دھار لیتے ہیں
ہم ایسے لوگ جنہیں درد سے محبت ہے
خرید پائیں نہ دُکھ تو، اُدھار لیتے ہیں
عمومی طور پہ راتیں یونہی گزرتی ہیں
شدید روتے ہیں، اُس کو پُکار لیتے ہیں
عشق ہو جائے تو پھر آگ کا دریا دیکھیں
پار اُتر جائیں تو پھر ہجر کا صحرا دیکھیں
سُرمئی شام میں ساحل کے سسکنے کی صدا
سُن کے برفاب سمندر کو پگھلتا دیکھیں
ڈُوبتا دیکھتے ہوں دوست کنارے پہ اگر
آپ سورج کو سمندر میں اترتا دیکھیں
مت سمجھیے کہ پذیرائی بہت ملتی ہے
سچ کہا جائے تو رُسوائی بہت ملتی ہے
بزمِ احباب میں جانے کا سبب یہ بھی ہے
ایسی تقریب میں تنہائی بہت ملتی ہے
تجھ کو مرہم کی توقع ہے؟ جہاں خلقتِ شہر
رِستے زخموں کی تماشائی بہت ملتی ہے
سکینت
کون سے لوگ تھے
بیٹیوں کی سعادت سے محروم تھے
ٹکڑیوں میں بٹے ریوڑوں کی طرح
عورتیں
جیسے انسانیت کے بھی زمرے میں شامل نہ تھیں
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
شناخت فطرت کی ہے ضروری یہ کون عالی مقام آیا
ادب سے اپنے پرائے اٹهیں نبیﷺ کا ادنی غلام آیا
میں تم کو بتلا رہا ہوں سن لو جو حکمِ ربُ الانام آیا
درود پڑھ لو سلام بهیجو نبیﷺ کا جس وقت نام آیا
چمن کو میں نے لہو دیا تها مگر کھلی جب بیاض گلشن
نہ تو کہیں تذکرہ ہے میرا نہ تو کہیں میرا نام آیا
اس خرابے سے کہیں دور نکلنے کے لیے
کوئی تیار نہیں ساتھ میں چلنے کے لیے
بھیج سکتا تھا میں اک لاش کے بدلے لاشیں
پھول بھیجے ہیں روایت کو بدلنے کے لیے
پہلی کوشش میں خسارہ ہی ہوا تھا اتنا
دوسرا عشق ضروری تھا سنبھلنے کے لیے
جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں
عشق تو وہ ہے جس میں ناموجود میسر آ جاتے ہیں
جانے کیا باتیں کرتی ہیں دن بھر آپس میں دیواریں
دروازے پر قُفل لگا کر ہم تو دفتر آ جاتے ہیں
کام مکمل کرنے سے بھی شام مکمل کب ہوتی ہے
ایک پرندہ رہ جاتا ہے، باقی سب گھر آ جاتے ہیں
بھلانے کے جتن کرنا دریچہ بھی کھلا رکھنا
عذاب بے یقینی میں ہمیشہ مبتلا رکھنا
کبھی بھڑکے ہوئے جذبات کو برفاب کر دینا
کبھی ٹھٹھری ہوئی دیوار پر کوئی دیا رکھنا
سماعت گھر کے دروازے کی درزوں پر لگا دینا
پھر اس کے بعد ان قدموں کی آہٹ کا پتہ رکھنا
صبر ہے رخت سفر جانے دو
جائے گا لینے ثمر جانے دو
جتنا مشکل بھی ہو رستہ اس کا
جتنا لمبا ہو سفر جانے دو
ساعتیں زندگی کی تلخ سبھی
کس طرح کی ہیں بسر جانے دو
خوب جھگڑا کریں، خوب گِریہ کریں
آؤ مِل جُل کے پھر اِک تماشا کریں
دل نہیں لگ رہا ہے کہیں بھی مِرا
اس اذیت میں تھوڑا اضافہ کریں
ٹُوٹنا دل کا کوئی نئی بات ہے؟
بات بھی ہو کوئی جس کا چرچا کریں
شہر سے نکلوں تو وحشت میں کمی آتی ہے
ورنہ سینے سے ہر اک سانس دبی آتی ہے
شور تک ہی نہیں محدود زبانیں اپنی
ہم سے لوگوں کو خموشی بھی بڑی آتی ہے
فجر تک بند کواڑوں کی نگہداری کرو
پھر کہیں جا کے کوئی کھڑکی کھلی آتی ہے
کیسا طویل ہجر تھا پھر بھی گیا نہیں ہے تُو
مجھ سے الگ سہی مگر مجھ سے جدا نہیں ہے تو
تُو مِری کائنات میں مجھ پہ گزرتا وقت ہے
چاہے مِرے سوا بھی ہو میرے سوا نہیں ہے تو
یہ کوئی اور پیار تھا وہ کوئی اور عشق ہے
تُو مِری جان ہے مگر میرا خدا نہیں ہے تو
دوریاں کب ہیں مِری جان چلے آئیں گے
پل میں چنیوٹ سے ملتان چلے آئیں گے
رقصِ کرتے ہوئے کچلیں گے انا پیروں سے
تیرے درویش بصد شان چلے آئیں گے
قاصدا وصل کی امید نہیں ہے لیکن
کوچۂ عشق سے بہتان چلے آئیں گے
تشنہ لبی میں کر کے شہادت کو بھی قبول
قربان جان کی گئی حق کے واسطے
سیراب کربلائے معلٰی کو کر دیا
خوں کو بہائے سبطِ نبیؐ حق کے واسطے
جھکنے دیا نہ سر کبھی باطل کے سامنے
صورت تھی نیزے پر سجی حق کے واسطے
میں ہی بولوں گا نہ تُو بولے گا
بے گناہوں کا لہو بولے گا
موسم گل میں یہ اعجاز جنوں
ایک اک تار رفُو بولے گا
مے کدہ بھی ہے کرامت کا مقام
دست ساقی میں سبُو بولے گا
بزم سخنوران میں آیا ہوں پہلی بار
مدت کے بعد دھیان میں آیا ہوں پہلی بار
مجھ کو مِرے خلاف ہی اپنوں نے کر دیا
اس سخت امتحان میں آیا ہوں پہلی بار
باتیں بھی کیں، ہو نہ سکے دوبدو مگر
میں ان کے درمیان میں آیا ہوں پہلی بار
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
سچ کہتا ہوں فطرت کا یہی وردِ لبی ہے
محتاج جہاں سارا ہے اللہ غنی ہے
دنیا جسے دعوئ صد بخیہ گری ہے
زخموں کی یہ سوغات اسی نے مجھے دی ہے
گنجائشِ دیوانۂ الفت نہیں اس میں
محدود بہت زمرۂ عالی نسبی ہے
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
کل جہاں مسرور ہے، دیوار و در روشن ہوئے
اُنؐ کے صدقے انجم و شمس و قمر روشن ہوئے
دشتِ طیبہ کے ہوئے ذرات ضوئے چشمِ دل
چوم کر تلوے نبیؐ کے اس قدر روشن ہوئے
قبر کی تاریکیاں وحشت زدہ کرتیں مگر
قمقمے آنکھوں میں ان کو دیکھ کر روشن ہوئے
ہُوا ہے بادباں ہے کُوچ کرنے کا اشارا ہے
سرِ ساحل کسی نے آ کے چُپکے سے پُکارا ہے
میں اس کی روشنی میں راستہ کیا ڈھونڈ سکتی ہوں
گہے جلتا، گہے بُجھتا مِری قسمت کا تارا ہے
ہمیں مثلِ صدف جب ذات میں اپنی ہی رہنا ہے
تو پھر کیا فرق پڑتا ہے بھنور ہے یا کنارا ہے
ستم گر کنارا کیے جا رہے ہو
یہ نقصان ہمارا کیے جا رہے ہو
یہ نظریں اٹھا کر کدھر دیکھتے ہو
یہ کس کو اشارا کیے جا رہے ہو
ہوا کیا ہے تجھ کو مجھے بھی بتاؤ
یہ منہ کیوں بچارا کیے جا رہے ہو
لوٹ آنا
اگر ندی میں بہتے ہوئے پھول
اور سردی کی شاموں میں
کواڑ کی اوٹ میں چھپی یوئی یادیں
تمہیں تنگ کریں
زنگ آلود تالے
تم نے شب خون مرے شہر پہ کیوں مارا ہے
تم نے فرعون کا اے شخص روپ دھارا ہے
کل قیامت کو خدا سے میں یہی پوچھوں گا
مجھ کو کس جرم میں بندوں نے ترے مارا ہے
تم نے مذہب کو کمانے کا وسیلہ سمجھا
ہائے افسوس، خُمارِ شکم کا مارا ہے
پھول اُن کے لیے ہیں تو سبھی خار ہمارے
کس موڑ پہ لے آئے ہمیں یار ہمارے
اب آنکھ بھی جھپکیں تو بدل جاتی ہے دنیا
منصوبے چلے جاتے ہیں بے کار ہمارے
کشتی کو سنبھالیں بھی تو اب کیسے سنبھالیں
لہروں میں کہیں بہ گئے پتوار ہمارے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
مشورہ
دل کو سہج سہج سمجھاؤ
گیلی شاخ دھواں دیتی ہے
غم کو دھیرے دھیرے برتو
ادا جعفری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
میں ہی نہیں پاگل
تیرے میرے سنگ چلے
بھنورا اور بادل
اسلم راجا
بے ربط
آنکھ بوجھل ہوئی
زرد پتے ہوا میں بکھرنے لگے
میں تری سمت آگے بڑھا اور پھر
یوں لگا جیسے یکدم اندھیرا سا چھانے لگا چار سُو
دیکھتے دیکھتے گھپ اندھیرا ہوا
میں تجھے دیکھتا رہ گیا
یہ وضح قومیت آئندہ رخصت ہونے والی ہے
نئی تہذیب سے تجدیدِ ملت ہونے والی ہے
شبِ لذت ہے آخر اور محفل اٹھتی جاتی ہے
سحر کیا ہونے والی ہے قیامت ہونے والی ہے
نئے سامانِ آرائش فراہم ہوتے جاتے ہیں
فراہم کیوں نہ ہوں ان کی ضرورت ہونے والی ہے
تِرا محتاط نہ اس خوف سے پلکیں جھپکے
کہ تِری یاد کا آنسو نہ زمیں پر ٹپکے
دسترس میں ہیں، مِرے بس میں ہیں موجود و عدم
اور میں پہنچا ہوں یہاں اسمِ محمدؐ جَپ کے
کس کے دربار سے لوٹایا گیا خالی ہمیں
کس کی خیرات پہ اوقات سے باہر لپکے
پچھلی رات کا تاوان ادا کر کے
نیند مجھ میں، ابھی لوٹی ہی تھی
گلی میں جھانکتی کھڑکی سے
نئی موٹر کار کا زوں زوں کرتا ایکسیلیڑر
نو دولتیے کی داستاں سُنانے لگا
نیند حرام ہوئی
کبھی تو تم بھی سمجھتے یہ مسئلہ میرا
تمہارے ساتھ نہیں تھا مقابلہ میرا
یہ میرے دوست پرانے مجھے بتاتے ہیں
کہ پہلے سب میں نمایاں تھا قہقہہ میرا
یہ کس نے چھین لیا مجھ سے شاعری کا جنوں
یہ کس نے توڑ دیا رب سے رابطہ میرا
سبھی پہ یکساں کُھلے شرطیہ نہیں ہوتا
کسی بھی شعر کا اک زاویہ نہیں ہوتا
اکیلے پن کی سیاحت بھی کارِ وحشت ہے
کہ دشت کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا
مِرا سلوک برابر ہے خاص و عام کے ساتھ
مِرے ورق پہ کہِیں حاشیہ نہیں ہوتا
عجیب دن ہیں
عجیب دن ہیں
تمہاری دوری نے ایسے عقدے بچھا دئیے ہیں
کہ جن کے کُھلنے کی ہر جہد میں میں اپنی سانسیں گنوا رہا ہوں
میں اپنے ہاتھوں کو زخمی کر کے
تمہاری پوروں کا لمس کیسے مٹا رہا ہوں
رم جھم ہے یہ اشکوں کی روانی ہے کہ کیا ہے
آ دیکھ مِری آنکھ میں پانی ہے کہ کیا ہے
انوار کے دھارے ہیں یہ خوشبو ہے کہ تم ہو
آنچل ہے کوئی رات کی رانی ہے کہ کیا ہے
شعلہ ہے یہ شبنم ہے کہ تتلی ہے کلی ہے
اک بحرِ سخن تیری جوانی ہے کہ کیا ہے
یار تیرے جذبوں میں شدتیں ضروری ہیں
من پسند بانہوں کی حِدتیں کی ضروری ہیں
دید کی خواہش بھی بِن تِرے ادھوری تھی
دوریاں مٹانے کو قربتیں ضروری ہیں
خواہش مکمل ہو آرزو نہ پوری ہو
اک کسک جگانے کو حسرتیں ضروری ہیں
تمہاری یاد کا ساون کہاں سے آتا ہے
یہ میری جان کا دشمن کہاں سے آتا ہے
شریکِ جام نہیں ہوں مگر یہ سوچتا ہوں
تِرا بھرا ہوا برتن کہاں سے آتا ہے
یہ پائلیں تو مِری طبع زاد ہیں لیکن
مِرے کلام میں گنگن کہاں سے آتا ہے
ہر ایک شے کو یہیں کا مکیں سمجھتا تھا
میں پہلے گھر کو ہی پوری زمیں سمجھتا تھا
خراب وقت میں گھڑیاں بھی ٹھیک نئیں چلتیں
مگر میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا
مِری دلیلیں ہی کمزور لگنے لگتیں مجھے
وہ اتنی دیر میں جا کر کہیں سمجھتا تھا
ہم نے مٹی کی محبت میں بغاوت نہیں کی
لاکھ مصلوب ہوئے پر کہیں ہجرت نہیں کی
اب نہیں تو سرِ محشر ہی یہ اٹھے گا سوال
منصفِ وقت نے انصاف کی جرأت نہیں کی
محتسب میرا کسی اور کا ہے حاشیہ گر
اس نے بے وجہ تو مجھ پر یہ عنایت نہیں کی
ابن الوقت، انا کے قیدی، بے حس تھے، ہرجائی تھے
اپنے بھائی بالکل حضرت یوسف والے بھائی تھے
رزق تو ایک بہانہ ٹھہرا، دُکھ تھا جھوٹے رشتوں کا
آج مقفّل چھوڑ دئیے ہیں وہ گھر جو آبائی تھے
اس کے بعد تو ان آنکھوں میں نور کا بُجھنا واجب تھا
رُوٹھ گئے وہ سارے منظر جو میری بینائی تھے
وصل کیا ہے
تمہارا لمس یا قربت کی گھڑی
وصل ہے قوتِ پروازِ تخیل کہ جب
میں تمہیں یاد کروں تو تمہیں سنائی دے
میری پکار سماعت سے یوں ٹکراتی ہوئی
کہ جیسے کان کی لَو کوئی جھونکا چُھو جائے
جہاں پہ تُو ہے تڑپتا ہے دل وہاں کے لیے
الجھ رہا ہوں خدا سے زماں مکاں کے لیے
سماعتوں سے اتارو تھکن، یہیں ٹھہرو
یہی پڑاؤ مناسب ہے داستاں کے لیے
جھلس گئے مِرے اجداد اسے بناتے ہوئے
تمہارے سر پہ جو چھتری ہے سائباں کے لیے
ابھی یہ طے تو نہیں ہے کہ کیا لگاؤں گا
پر اس زمین پہ پودا نیا لگاؤں گا
غبار حد سے بڑھے گا فسردگی کا تو میں
اکیلی شام میں اک قہقہہ لگاؤں گا
اگرچہ اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں
اسے میں پھر بھی مکمل صدا لگاؤں گا
ہمارے جیسے ہی لوگوں سے شہر بھر گئے ہیں
وہ لوگ جن کی ضرورت تھی سارے مر گئے ہیں
گھروں سے وہ بھی صدا دے تو کون نکلے گا
ہے دن کا وقت ابھی لوگ کام پر گئے ہیں
کہ آ گئے ہیں تِری شور و شر کی محفل میں
ہم اپنی اپنی خموشی سے کتنا ڈر گئے ہیں
سمندروں سا بہاؤ تباہ کر دے گا
ہمیں یہ تم سے لگاؤ تباہ کر دے گا
کسی گھڑی بھی میسر نہیں سکوں دل کو
یہ خواہشوں کا الاؤ تباہ کر دے گا
وہ بے وفا ہے، ستمگر ہے، بے مروت ہے
اسے نہ اپنا بناؤ، تباہ کر دے گا
فقط محنت مشقت کا نتیجہ کم نکلتا ہے
دعا جب ماں کی شامل ہو تو پھر زمزم نکلتا ہے
کہیں پر بھی سنبھلنے کی یہ مہلت ہی نہیں دیتا
کنار وقت سے ہر حادثہ اک دم نکلتا ہے
محبت کے سفر میں جب کہیں پر موڑ آ جائے
سنا یہ ہے وہیں سے ہجر کا موسم نکلتا ہے
میں بھی انسان ہوں مجھ پہ بھی جنوں طاری ہے
کوئی بتلائے؟ یہ کس قسم کی بیماری ہے
کیوں مِرے جسم کے اعضاء میں ہے خانہ جنگی
قلب مجروح! یہی کیا تِری سرداری ہے؟
خوابِ خرگوش میں سوئی ہیں سبھی کی فکریں
ظاہری طور پر ہر ایک میں بیداری ہے
تمسخر ان کا حقائق کے ساتھ باقی ہے
طلوع صبح یہ کہتے ہیں رات باقی ہے
ہمارا ربط حریفوں کے ساتھ باقی ہے
اسی سبب سے نشاط حیات باقی ہے
اگر چہ سلسلۂ مشکلات باقی ہے
مِرے لبوں پہ نوائے حیات باقی ہے
حاکم و شیخ سے یاری ہو مِرے یار نہیں
میں گنہ گار ہوں اتنا بھی گنہگار نہیں
جبہ و خرقہ و دستار و قبا ایک طرف
سب برہنہ ہیں اگر صاحبِ کردار نہیں
کوئی معبود نہیں کوئی نہیں، صرف خدا
یعنی انکار کا مطلب ہے کہ انکار نہیں
نمی آنکھوں کی بھی محسوس کی تحرِیر میں شامل
کہ کاجل کی دِکھے ہے دھار سی تنوِیر میں شامل
مجھے پا بند کر لیتی کہاں زنجیر میں دم تھا
تمہاری زُلف کی اِک لَٹ رہی زنجیر میں شامل
عمارت میں جو سِطوت ہے ہمارے دم قدم سے ہے
ازل سے ہے غرِیبوں کا لہو تعمیر میں شامل
بغاوت
فقیروں کے تن پر لبادہ نہیں
کوئی ساغر و جام و بادہ نہیں
نہیں اب جنوں کا اعادہ نہیں
حنا اب قفس میں زیادہ نہیں
شب و روز گنتی کے کچھ کام ہیں
ابھی صبح دم تھے ابھی شام ہیں
آغاز اور انجام سے بے خبر
کہانی ہوتی رہی
وقت کے سمندر میں
کتنے ہی جزیرے ڈوب گئے
کتنے ہی جہاز غرق ہوگئے
فطرت کے کارخانے میں
عمر ہم لوگ کہاں کاٹتے ہیں
درد کا کوہِ گراں کاٹتے ہیں
تم بسر روشنی کرتے جاؤ
ہم چراغوں کا دھواں کاٹتے ہیں
عشق وہ بانجھ زمیں ہے جس پر
سُود بوتے ہیں زیاں کاٹتے ہیں
نہ شب کا کچھ پتہ چلے نہ دن کی کچھ خبر لگے
میں اس نگر میں ہوں جہاں محافظوں سے ڈر لگے
خدا تِرے ملنگ ہیں یہ مست لوگ تنگ ہیں
یہاں پہ کچھ سکون ہو تو گھر بھی اپنا گھر لگے
تبھی تو ہم کو سازشوں نے سر کے بَل گِرا دیا
ہمی تھے بے وقوف جو کسی کی آس پر لگے
مدار نارسائی میں
مگر اس دائرے میں
نقطہ نقطہ نارسائی کے تعاقب میں
مسلسل گھومنے والو
کبھی مرکز کو دیکھا ہے
کہ تم جس کے تعلق سے
مانگا رب سے جدا اور مِلا مختلف
جیسے ہے میرے دل کی صدا مختلف
ہم نہیں وہ جو جھک جاتے ہیں وقت پر
ہے طبیعت میں اپنی انا مختلف
میں نے جس کو سنائی تھی من کی کتھا
اس سے کہنا تھا کچھ، اور کہا مختلف
اپنے من پر حاوی ہو جا
اندر سے بھی صوفی ہو جا
جو رب سے باغی کرتی ہے
اس دنیا سے باغی ہو جا
جوش پہ ہے فتنوں کا طوفاں
حضرتِ نوح کی کشتی ہو جا
سر بچے یا نہ بچے طرۂ دستار گیا
شاہ کج فہم کو شوق دو سری مار گیا
اب کسی اور خرابے میں صدا دے گا فقیر
یاں تو آواز لگانا مِرا بے کار گیا
سرکشو شکر کرو جائے شکایت نہیں دار
سر گیا،۔ بار گیا،۔ طعنۂ اغیار گیا
اس محلے کے سب گھروں کی خیر
اور گھروں میں جلے دِیوں کی خیر
ماں! میں قربان تیرے غصے پر
بابا جانی کی جھڑکیوں کی خیر
تیرے ہم خواب دوستوں کے نثار
تیری ہم نام لڑکیوں کی خیر
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
مبارک مومنو تم کو کہ پھر ماہ صیام آیا
یہ وہ ماہ مقدس، جس میں خالق کا کلام آیا
کلام پاک اترا جو کہ سر تا پا ہدایت ہے
تمیز حق و باطل جس سے ہو ایسا نظام آیا
بڑا موقع ہے استغفار و اذکار و نوافل کا
عبادت سے نہ ہو فارغ، عبادت کا مقام آیا
طاق پر رکھ کے مرے خواب سجانے والے
تجھ کو اچھا نہیں سمجھیں گے زمانے والے
گل فروشا! بڑے دن بعد دی آواز ہمیں
لے کے آئے ہو وہی گل، وہ پرانے والے
ہنستے جاتے ہو معافی کی طلب کرتے ہوئے
ایسا کرتے ہیں بھلا یار منانے والے
ہم مریدوں کو یوں مراد ملی
وہ نہیں، صرف اس کی یاد ملی
نارسائی کو ہجر کہتے رہے
اور اس بات پر بھی داد ملی
پیڑ پر شاخ پہلے آئی تھی
جو ہمیں روشنی کے بعد ملی
اہل دل غم سے لطف پاتے ہیں
پھول کانٹوں میں مسکراتے ہیں
دشمنوں کو تو ہم ہراتے ہیں
دوستوں سے شکست کھاتے ہیں
عشق کے راستے میں اے واعظ
لوگ لُٹ کر مراد پاتے ہیں
ہمارے علماء
جاہلوں کو نہیں عالم سے ملاؤ لوگو
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگو
کر رہا ہوں میں رقم نظم بنامِ علماء
حکمتوں سے ہے بھرا اب بھی کلامِ علماء
خُلق و تہذیب کی صورت میں پیامِ علماء
ہے مِرا فخر کہ ہوں میں بھی غلامِ علماء
ترکِ تعلقات کا وعدہ نہیں کیا
وعدہ اگر کِیا اسے پورا نہیں کیا
اک کام تھا ضروری ضروری تھا ایک کام
دل مطمئن نہیں تھا، لہٰذا نہیں کیا
جیسی ملی ہے ویسی گزاری ہے زندگی
ہم نے کہیں بھی جُھوٹا دکھاوا نہیں کیا
جرم اپنا ہی مان کے ہم نے
ہار دی ہازی جان کے ہم نے
رِیت سَسی کی، لو نبھا ڈالی
ریت صحرا کی سان کے ہم نے
جو تھا ممکن نہیں کسی کے لیے
کر دکھایا ہے ٹھان کے ہم نے
کیا کہا
میں نے سنا نہیں
دل مضطرب زرا پھر سے کہہ
وہ جو دو گھڑی کی بات تھی
تُو نہ کہہ سکا ہے تمام عمر
اب گِلا نہ کر، سزا نہ دے
شاعری ہم کلام ہونے دو
لفظ میرے غلام ہونے دو
ابھی جلدی کیا ہے جانے کی
رک جاؤ کہ شام ہونے دو
دل پہ میرے تُو نے لکھ دیا
ذرا سا مجھے بدنام ہونے دو
میرے سارے سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
ہے جس کا نام، وہ تم ہو
ہے جس کا خیال، وہ تم ہو
تمہی ہو روشنی میری
تمہیں سے زندگی میری
یہ سلسلۂ ہجر کبھی رونما نہ ہو
میں چاہتا ہوں تجھ کو کوئی حادثہ نہ ہو
یہ ہاتھ تجھ کو چُھو کے کہیں کٹ چکے نہ ہوں
یہ جسم تجھ کو چُھو کے کہیں جل رہا نہ ہو
ہم لوگ ایک ساتھ رہیں مدتوں تلک
گر وقت کی کتاب میں یہ ارتقاء نہ ہو
کہانی
وقت کی کہانی بھی
بس عجیب سی ہی ہے
کیسے یہ گزرتا ہے
جا کے پھر نہیں آتا
ہے بس ایک دریا سا
یا ہے ابر باراں سا
انہیں جہنم سے مت ڈرائیں
سڑک کنارے، سٹیشنوں پر
پرانے کوٹھے کی بالکونی میں
ہوٹلوں کی لابیوں میں
بڑے بزرگوں کے مقبروں
شب گئے جو کھڑے ہوئے ہیں
ابھی بھی تذکرہ ہے روز و شب اداسی کا
سفر تمام ہوا ہی ہے کب اداسی کا
تُو آ گیا ہے تو آ بیٹھ مسکراتے ہیں
کہ انتقام تو بنتا ہے اب اداسی کا
کچھ اس لیے بھی اداسی نہ کم ہوئی دل سے
کہ تُو نے پوچھا نہیں تھا سبب اداسی کا
گزرتی آئی ہے خوشیوں کی چاہ کرتے ہوئے
گزر ہی جائے گی غم سے نباہ کرتے ہوئے
کوئی نہ دیکھ سکا اس کا دیکھنا مجھ کو
نگاہ پھیر لی اس نے نگاہ کرتے ہوئے
کبھی ہنسے بھی تو کچھ اس طرح ہنسے ہم تو
کہ جیسےڈرتا ہے کوئی گناہ کرتے ہوئے
دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں
یہ آدمی کی خدائی کا وقت ہے کہ نہیں
کہو ستارہ شناسو،۔ فلک کا حال کہو
رخوں سے پردہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں
ہوا کی نرم روی سے جواں ہوا ہے کوئی
فریب تنگ قبائی کا وقت ہے کہ نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہفت اقلیم میں اس دیں کا بجا ہے ڈنکا
تھا تری عام رسالت کا گرجتا بادل
بجلی دو چار قدم چلکے پلٹ جائے نہ کیوں
وہ اندھیرا ہے کہ پھرتا ہے بھٹکتا بادل
لطف سے تیرے ہوئی شوکتِ ایماں محکم
قہر سے سلطنتِ کفر ہوئی مستا صل
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
غمِ ہجرِ مصطفیٰؐ میں میری جان سُلگ رہی ہے
کبھی اُنﷺ کی ہو زیارت یہی لو لگی ہوئی ہے
میں چلا ہوں اپنے گھر سے یہی سوچ کر مدینے
میرا کام جستجو ہے، تیراﷺ کام رہبری ہے
نہ ہُوا ہے کوئی تجھ سا نہ جہاں میں کوئی ہو گا
تُو حبیبِﷺ کِبریا ہے تجھے زیب سروری ہے
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
رسولﷺ حق سبب خلقت دو عالم تھے
جہانِ ظلم میں اک رحمت مجسم تھے
ہر آدمی کے لیے زخم دل کا مرہم تھے
کرم کا بحر تھے لطف و عطا کا زم زم تھے
ستمگروں کو تحمل کی حد دکھاتے تھے
وہ ظلم کرتے تھے ان پر، یہ مسکراتے تھے
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
غلغلہ ہے ہر طرف اس حسنِ عالمگیر کا
مصدر و مطلع ہے جو آفاق کی تنویر کا
نغمۂ صلِ و سلم ہے ضیائے قلب و جاں
بسلمہ تزئین و غازہ ہے رخِ تحریر کا
شکر ہے بے چوں محمِدؐ کے محمدؐ کے طفیل
مل گیا طغرا ہمیں فردوس کی جاگیر کا
عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
محبوبِ کبریا سے میرا سلام کہنا
عالم کے رہنما سے میرا سلام کہنا
اے رہ نوردِ جنت، اے رہروِ مدینہ
تُو ہے مِری نظر میں انمول اک نگینہ
راہِ خدا میں ہر پل رحمت کا ہے سفینہ
اس پاک در پہ جا کر با شوق و با قرینہ
ہم آڑے تِرچھے مکانوں کی
چھتوں سے ٹپکتے لوگ
بارشوں کے قہر میں
سوکھے شجر بن کر تیرتے ہوئے
اپنی سانسوں کی لکڑیاں جلاتے
دُھویں سے آکسیجن اٹھاتے
کوئی ایسا شغل تو ہو زیست کرنے کا
جسے واجب سا کوئی نام دے دیں
خواہ اس میں قصۂ رنگ پریدہ کی
کوئی تمثیل ڈھونڈیں یا کسی اک یاد کو
وہ اسم دے دیں جو گزرتے وقت کا
کوئی بھلا عنوان طے پائے
حاصل ہے ساری عمر کا اک سوزِ ناتمام
دستِ طلب میں کچھ نہیں، بس ایک ترا نام
جس پر بہت ہی ناز کیا ہے تمام عمر
آخر پتہ چلا وہ محبت تھی میری خام
جس مستقل کسک کو دیا نام عشق کا
اک آرزو کا کھیل تھا اور وہ بھی ناتمام
اب نہ موسم، نہ موسموں کے اصول
اڑ رہی ہے بھری بہار میں دھول
اب ملیں تو کہاں ملیں اس سے
یار! پھر بند ہو گیا اسکول
میں بہت سے گھروں میں دیکھتا ہوں
نیم کی شاخ پر گلاب کا پھول
شجر نے دھوپ نگل کر بھری ہے ٹھنڈی آہ
فنا کی آگ سے نکلی یہ سردیاں دیکھو
پلک جھپکتے ہی سینے سے دل اُڑا لے جو
نگاہِ نرگسِ شہلا کی پُھرتیاں دیکھو
خلائے ذات میں وحشت کی جلوہ زاری ہے
ہجومِ کرب سے سانسوں کی ہچکیاں دیکھو
کشمیر
نظارہ خوشرنگ ہے مگر یہ فضائیں اتنی ہراساں کیوں ہیں
بہشتِ ثانی ہے نام لیکن، مکین اتنے پریشاں کیوں ہیں
بہار چپ سی کھڑی ہے کب سے ہوا کا لہجہ ہے سرد اتنا
گلابی غنچے خود اپنی خوشبو بکھیرنے سے گریزاں کیوں ہیں
اے ارضِ کشمیر! تیری چادر، دریدہ کیوں ہے، بُریدہ کیوں ہے
بدن پہ کیونکر ہیں داغ اتنے، اور اس پہ اتنے نمایاں کیوں ہیں
ملی ترانہ
اے وطن
میری جاں تو سلامت رہے
تجھ کو چاہا تو پھر چاہتیں سب ختم
تیری گلیوں چوراہوں میں میرا جنم
درجنوں بار ہو اور نچھاور کروں
تجھ پہ ہر اک جنم
ملی ترانہ
مِرے وطن
سدا یونہی سجی رہے یہ انجمن
جواں رہے ہمیشہ تیرا بانکپن
مِرے وطن
عظیم تیرے کوہسار، تِری چوٹیاں
ارم سے بھی حسین ہیں یہ تیری وادیاں
ملی ترانہ
ہموطن یہ گلستان تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سُود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
قائد اعظم کی کہتے ہیں امانت ہم جسے
ورثہ یہ اے مہرباں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
وقت کا ہے یہ تقاضا متحد ہو جائیں ہم
کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ملی ترانہ
اک خدا ہے، اک نبی ہے، ایک ہی قرآن ہے
ایک ہی کعبہ ہے ہمارا، ایک ہی ایمان ہے
ایک ملت ہے ہماری، ایک پاکستان ہے
اس وطن کے دشت ودر کی سب فضائیں ایک ہیں
سارے بھائی، ساری بہنیں، ساری مائیں ایک ہیں
پیار کی کرنوں سے کر دیں، چاک نفرت کے غلاف
ملی ترانہ
نواحِ نصرت و فیروزی و ظفر میں رہوں
مِرے وطن میں تِرے قریۂ خبر میں رہوں
عزیزِ جاں ہیں یہی راستے غبار آلود
نہیں یہ شوق کہ گُلپوش رہگزر میں رہوں
تِرے ہی گیت سنوں دھڑکنوں کے سرگم میں
کسی دیار میں ٹھہروں کسی نگر میں رہوں
ملی ترانہ
اے مِری ارضِ وطن
اے مِری ارضِ وطن، پھر تِری دہلیز پہ میں
یوں نِگوں سار کھڑا ہوں کوئی مجرم جیسے
آنکھ بے اشک ہے برسے ہوئے بادل کی طرح
ذہن بے رنگ ہے اجڑا ہوا موسم جیسے
سانس لیتے ہوئے اس طرح لرز جاتا ہوں
اپنے ہی ظلم سے کانپ اٹھتا ہے ظالم جیسے
ملی ترانہ
اے وطن، اے جان
تیری انگبیں بھی اور خاکستر بھی میں
میں نے یہ سیکھا ریاضی سے ادب بہتر بھی ہے برتر بھی ہے
خاک چھانی میں نے دانش گاہ کی
اور دانش گاہ میں بے دست و پا درویش حُسن و فہم کے جویا ملے
جن کو تھی میری طرح ہر دستگیری کی طلب
تِرا غم یوں مِرے سینے کے اندر سانس لیتا ہے
کہ جیسے سرد راتوں میں دسمبر سانس لیتا ہے
تجھے آواز بھی دیتا تو کیسے، خود مِرے اندر
کوئی مجذوب بیٹھا ہے،۔ قلندر سانس لیتا ہے
میں جب لفظوں سے کاغذ پر تِری صورت بناتا ہوں
تو آنکھیں بولنے لگتی ہیں منظر سانس لیتا ہے
چاند کے ہوتے ہوئے بھی چاندنی ہوتی نہيں
خشک سالی ہو تو مٹی میں نمی ہوتی نہيں
وقت کے کچھ فیصلوں کو مان لینا چاہیے
یار! اس ظالم کی رائے سرسری ہوتی نہيں
باتوں باتوں میں مجھے وہ کاٹنے تک آ گئی
تم تو کہتے تھے؛ محبت باؤلی ہوتی نہيں
کارِ گریز پر جو رعایت ہوئی میاں
اس سے بڑی بھی کوئی حماقت ہوئی میاں
ہے وصل میں گزشتہ محبت کا ذکر بھی
معصومیت یہ کس کو عنایت ہوئی میاں
آواز سن کے عمر کا اندازہ ہو گیا
اور بات کر کے ملنے کی حسرت ہوئی میاں
تُو سمجھتا ہے گر فضول مجھے
کر کے ہمت ذرا سا بھول مجھے
ایک شفاف آئینہ تھا میں
راستے نے کیا ہے دھول مجھے
چور رستے کے صاحب دیواں
انکھڑیاں کھول کر قبول مجھے
تن کی آنکھیں تو دو ہی ہوتی ہیں
من کی آنکھیں ہزار ہوتی ہیں
تن کی آنکھیں تو سو ہی جاتی ہیں
من کی آنکھیں کبھی نہ سوتی ہیں
چاند سورج کے ہیں جو محتاج
بھیک نہ مانگو ان اجالوں سے
مردانہ کمزوری
کوئی اپنا مَرا
میرا اپنا مَرا
میرے آنگن میں ماتم کی صف بچھ گئی
عورتیں بین کرتی رہیں
بچے روتے رہے
مٹی ہاتھ لگا لیتی ہے، پانی مس ہو جاتا ہے
چاک پہ آتے آتے کوزہ خود بے بس ہو جاتا ہے
دن بھر کرنوں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں دل میں
شام کے بعد یہ گرجا عیسیٰ کا محبس ہو جاتا ہے
اچھا تو اس کیکر پر زیتون کی شاخیں جھکتی ہیں
اچھا تو یہ ہجر ہے جو ہجرِ اقدس ہو جاتا ہے
ذرا ٹھہرو رکو دو پل
بہت پیاسی مِری آنکھیں
انہیں سیراب کرنے دو
مِرا دل رکھنے کو ہی تم
اگر کچھ پل ٹھہر جاؤ
نظر بھر کے تمھیں دیکھوں
آپ میں ظلم کے انداز اب آنے تو لگے
خیر سے چاہنے والوں کو ستانے تو لگے
بے حجابانہ سرِ بزم وہ آنے تو لگے
شرم کچھ دور ہوئی، آنکھ ملانے تولگے
خود نہ آئیں، وہ مجھے پاس بلانے تولگے
رفتہ رفتہ ہی سہی راہ پرآنے تو لگے
یہ حکایت تمام کو پہنچی
زندگی اختتام کو پہنچی
رقص کرتی ہوئی نسیمِ سحر
صبح تیرے سلام کو پہنچی
روشنی ہو رہی ہے کچھ محسوس
کیا شب آخر تمام کو پہنچی
رنج سے چیختی ہوئی آخر
روٹھنے لگ گئی خوشی آخر
عشق میں مشورہ ضروری تھا
میں نے مجنوں سے بات کی آخر
جانے کیا تھا چراغ کی لو میں
کہ ہوا ڈر کے بجھ گئی آخر
وقفِ فریاد بھی نہیں رہتا
دل مگر شاد بھی نہیں رہتا
ایک وہ ہے کہ بھولتا ہی نہیں
اور کچھ یاد بھی نہیں رہتا
جب جہالت کا دور دورہ ہو
کوئی استاد بھی نہیں رہتا
جشن بہاراں
جشن بہار میں رستوں پر
جو پھول سجاتے رہتے ہیں
نہر کنارے روشن کرتے
رنگ بچھاتے رہتے ہیں
کاش کوئی ان کو بتلائے
میں اپنی ابتدا کی کھوج میں ہوں
میں بن باپ کا بچہ ہوں
کائنات کی کنواری دوشیزہ نے
نیلے پانیوں کی چادر کی اوٹ میں
مجھے اپنی کوکھ سے جنم دیا
اور ہوا کی ہتھیلی پر رکھ کر
اپنے شہر کے رہنے والے دیکھ لیے
اجڑی شام، اداس حوالے دیکھ لیے
دیکھ لیے اس شہر کے ہم نے باشندے
تن کے اجلے، من کے کالے دیکھ لیے
پل میں تولہ پل میں ماشہ ہو جائیں
گِرگٹ جیسے لوگ نرالے دیکھ لیے
سفر کا ذائقہ اڑتے ہوئے غبار میں تھا
سو گرد ہو کے ہمیشہ میں رہگزار میں تھا
فرار ہونے کی خواہش رہی اسے ہر پل
تمام عمر جو خود ساختہ حصار میں تھا
محل سراؤں پہ قابض تھا لشکرِ غدار
جو بادشاہ تھا اجڑے ہوئے دیار میں تھا
ننگا ناچ
دور کہیں جب رات گئے اک کوٹھے پر مجرا کرتے کرتے
تھک کر عورت گر جاتی ہے
اس کے بعد وہاں ہوتا ہے ننگا ناچ
بند کمرے میں دو عاشق اک بیج محبت کا بوتے ہیں
اس بیج سے بننے والا پودہ جڑیں نکلنے سے پہلے ہی
بھوک کا مارا ہوا تھا
اے کمینے پیٹ! میں نے
خواب گروی رکھ دئیے
میں وہ مفلس ہوں کہ جس نے
ہیرے جیسے قیمتی اپنے
ہاتھ گروی رکھ دئیے
دکھ اور اذیت اور بے بسی کہاں سے آتے ہیں
انسان پر ظلم کون کرتا ہے؟
پانی کا بہاؤ تیز ہے
لیکن پانی سوچ نہیں سکتا
ہوائیں اندھی ہیں
سورج بے نیاز ہے
جو بات کی ہے وہ لگی لپٹی ہوئی نہیں
امید کوئی آپ سے رکھی ہوئی نہیں
بے خوف ہو کے اپنا سفر کر رہا ہوں میں
جوتی کسی کی پاؤں میں پہنی ہوئی نہیں
کھڑکی سے سبز رنگ کا پردہ بھی ہٹ گیا
تازہ ہوا نے سانس بھی روکی ہوئی نہیں
مشورہ
کبھی تم بھی تنہا درختوں سے آباد
گونگی چٹانوں پہ سوئے ہوئے
موسموں کی کہانی سنو
ان کی آنکھوں سے بچھڑی ہوئی نیند
اور خواب کی سرحدوں سے بہت دور
میری تمام عمر کے حزن و عذاب پی گئی
میں نے شراب پی نہیں مجھ کو شراب پی گئی
اس کے بدن کے معجزے ایسے بھی رونما ہوئے
اس کے لبوں کی تازگی سارے گلاب پی گئی
بتیس 32 برس کا ہوں فقط لیکن ہے ضعف 60 کا
فصلِ فراق دیکھ تو سارا شباب پی گئی
ہوا سرکش، اندھیرا سخت جاں ہے
چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے
یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو
کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے
ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ
پسِ منظر بھی کوئی امتحاں ہے
ایسا کیوں ہے
مالک میرے
بھاری پتھر ڈھونے والے
بھوکے پیاسے سونے والے
چپکے چپکے رونے والے
ڈرتے ڈرتے جینے والے
وقت کی تلخی زمانے کو بتاتی تحریر
کیسے ممکن تھا کہ دنیا کو نہ بھاتی تحریر
ایسے تنہائی کے صحرا میں سفر کرتے ہیں
جس طرح درد کی تفسیر بتاتی تحریر
ایک درویش کا دل، فُقر دکھاتا ہوا شعر
ایک دل کو میرے دنیا پہ لُبھاتی تحریر
لاکھ تم اشک چھپاؤ، ہنسی میں بہلاؤ
چشمِ نمناک بتاتی ہے کہ؛ تم روئے ہو
یہ جو رُخ موڑ کے تم نے کہا نا؛ ٹھیک ہوں میں
مجھے آواز بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
جو اُترتی ہے مِری آنکھ میں گاہے گاہے
وہ نمی صاف بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
تم سمجھتے ہو کہ میں صرف زباں کھولوں گا
بات بازار میں رکھ دوں گا، دُکاں کھولوں گا
پھر تِری ذات پہ انگُشت نمائی ہو گی
جب میں لوگوں پہ کوئی اور جہاں کھولوں گا
آج میں شہر کے بوڑھوں سے ملوں گا جا کر
آج مُدت سے پڑے بند مکاں کھولوں گا
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
ذرۂ بے نشان ہوں لیکن
کیا خبر کل نیا سویرا ہو
اور میں آفتاب ہو جاؤں
کوکی گل
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
گزرا تھا ابھی کون سڑک سے کہ ابھی تک
ہاتھوں میں ہے بنیۓ کے اسی طرح ترازو
درزی کی سوئی پہلے جہاں تھی ہے وہیں پر
مخمور جالندھری
گور بخش سنگھ
میرا انتظار مرجھایا پھول ہے
میں چمگادڑوں کی طرح تنہا ہوں
میرے انتشار خون میں سانپوں کی پھنکار رینگتی ہے
میرا جسم اُڑ گئے پرندوں کے بعد لرزتی شاخ ہے
آج وقت میری گرفت میں نہیں
آج رومی میری تشفی نہیں بن رہا
تیری جانب ہم جو لے کر خواب سارے چل پڑے
جب چلے تو یوں لگا جیسے ستارے چل پڑے
پہلے مجھ کو ہجر نے صحرا بنا کے رکھ دیا
پھر مِری جانب سمندر کے کنارے چل پڑے
جانتے ہیں آگ کا دریا ہے منزل کی طرف
پھر بھی ہم تیرے تصور کے سہارے چل پڑے
اپنی تو ساری توجہ ہی نبھانے پر تھی
جبکہ اپنوں کی نظر کام چلانے پر تھی
تشنگی بڑھتی گئی حسن کی سیرابی سے
روز اک شکل نگاہوں کے نشانے پر تھی
اک عجب پیاس نے پھر سارا بدن گھیر لیا
میں نے اک زلف کو سونگھا جو سرہانے پر تھی
ایسا نہیں کرتے
سنو ایسا نہیں کرتے
کبھی جو چاہتیں نہ ہوں
کبھی جو نہ محبت ہو
جو تم نہ وقت دے پاؤ
خبر اس کی نہ لے پاؤ
دن کی وحشت تو گئی چاک گریباں ہو کر
شام آئی ہے تِرے در سے پریشاں ہو کر
وہ تفرقہ ہوا برپا تِرے کھو جانے پہ
دل ہی روپوش ہوا بے سرو ساماں ہو کر
ہے کوئی شوخ جو بہکائے، اٹھائے اس کو
درد بیٹھا ہے یہاں دیر سے درباں ہو کر
آج اِن ادھ کھلی آنکھوں کو ذرا موند نہ لیں
جس طرح قبر میں ہر لاش تھکن کاٹتی ہے
چوٹ ایسی ہے کہ نوحہ بھی نہیں بن سکتی
زخم ایسا ہے کہ ہم سے نہ دکھایا جائے
کاش کر سکتے ہم اظہارِ اذیت لیکن
حال افسانہ نہیں ہے کہ سنایا جائے
گھر بہ آتش ہے، ضیا بار سمجھ لیتے ہیں
میری مشکل کو مِرے یار سمجھ لیتے ہیں
ایسے رستے پہ ہی چلنے کا پتا چلتا ہے
ہم عموماً جسے دُشوار سمجھ لیتے ہیں
آپ دستک یا صداؤں سے پریشان نہ ہوں
ہم ہی دروازے کو دیوار سمجھ لیتے ہیں
میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا
رنگوں نے نکھرنا چھوڑ دیا خوشبو نے مہکنا چھوڑ دیا
گلشن کی جنوں انگیز فضا کیا ویسی جنوں انگیز نہیں
بلبل نے بغاوت کی لے میں کیا اب سے چہکنا چھوڑ دیا
ظلمت کے خداؤ کھل کے کہو کیا نور نے گھٹنے ٹیک دئے
سورج نے چمکنا چھوڑ دیا تاروں نے چھٹکنا چھوڑ دیا
ماں
پہلی بار میں کب تکیے پر
سر کو رکھ کر سوئی تھی
ان کے بدن کو ڈھونڈا تھا اور روئی تھی
دو ہاتھوں نے بھینچ لیا تھا
گرم آغوش کی راحت میں
کیسی گہری نیند مجھے تب آئی تھی
امجد اسلام امجد کی اپنی والدہ کے انتقال پر کہی گئی نظم
وہ جو اک دعائے سکون تھی میرے رخت میں
وہی کھو گئی
میں جدھر گیا میں جہاں رہا
میرے ساتھ تھا
وہی ایک سایۂ مہرباں
اک ہوک سی جب دل میں اٹھی، جذبات ہمارے آ پہونچے
الفاظ جو ذہن میں موزوں تھے ہونٹوں کے کنارے آ پہونچے
حالات غمِ دل کہہ نہ سکے اور دردِ دروں بھی سہ نہ سکے
آنسوں جو حصارِ چشم میں تھے پلکوں کے سہارے آ پہونچے
منجھدار میں تھے اور ڈر یہ تھا کہ ڈوب ہی جائیں گے اب ہم
موجوں میں جو لہرائی کشتی، تنکوں کے سہارے آ پہونچے
میں اس اجنبی سے واقف نہیں
میں نہ تو اس اجنبی سے واقف ہوں نہ ہی اس کے مناقب سے
میں نے بس ایک جنازہ دیکھا تو اس کے پیچھے چل پڑا
دوسروں کی طرح احتراماً سر جھکائے ہوئے
میرے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ پوچھ لوں؛
یہ اجنبی کون ہے؟
نوحۂ مرگِ ہابیل
ہابیل کی لاش ہے گھاس پر
مفرور ہے بھائی قابیل
اک پرندہ آیا وہاں، ڈبوئی اس نے منقار اپنی
خون میں، سیدھا ہوا، اڑ گیا
اڑتا رہا پھر دنیا بھر میں یہ طائر پرواز
شب بخیر
وہ جن کا اجر بھی شاید
صعوبت در صعوبت ہے
میں ان دُشوار لمحوں کی
اُداسی کا اثاثہ ہوں
سونیا کانجو
سب چلے جائیں گے
چاند برباد ٹیلوں کے پیچھے
کبوتر فسردہ مزاروں کی جانب
ہوا گمشدہ پانیوں کے پرے
راستے راستوں کی طرف
کسں کو بھولوں گا میں
وہ نظر جس سے ہمکلام نہیں
اس کا محفل میں کوئی کام نہیں
میرا دن بھی سفر میں گزرا تھا
میرے حصے میں کوئی شام نہیں
جا رے قاصد! تجھے خدا پوچھے
ایک خط بھی ہمارے نام نہیں
مدت ہوئی میں
کوئی رومانوی نظم نہیں لکھ پایا
میرے لب کسی کی
جبیں کے بوسے کو ترس گئے ہیں
اگر تم چاہو تو
یہ تسلسل ٹوٹ سکتا ہے
مستقل ہو نہ ہو، ادھار ملے
دل کی حسرت کو کچھ قرار ملے
دو گھڑی ہی سہی چلے آؤ
غم کو پھر سے ذرا نکھار ملے
ہم کہ سمجھے تھے خود کو ہی یکتا
راہ میں ہم سے بے شمار ملے
چشمہ
تم میرے نا محرم ہو
پھر کیوں خواب میں آتے ہو؟
شب گر تم کو خواب میں دیکھوں
اٹھ کر اپنی آنکھیں کوسوں
عکس تمہارا دیکھے کوئی
اتنی مشکل حیات ہوتی ہے
جیسے جنگل میں رات ہوتی ہے
ایک بے پیرہن اداسی سے
روز خلوت میں بات ہوتی ہے
عشق والوں کی ذات ہو بھی تو
عشق کی کوئی ذات ہوتی ہے
دائرے
کاش کہ تم تدریجی عمل کے دوران ہی جان لو کہ
زندگی کے ہوائی اڈے کے ہینگر پر
متعدد قابل مرمت طیارے رکے رہتے ہیں
ہو سکتا ہے کہ تم بھی گراؤنڈ ہو چکی ہو، یا
گیراج کی زندگی بسر کر رہی ہو
کٹے سروں کے بنے تخت پر اچھلتا ہے
امیرِ شہر ستم گر کہاں بدلتا ہے
اُجاڑ گھر کے درِ خستہ حال سے ہر شام
اُداس شخص نہیں تعزیہ نکلتا ہے
خدا کا خوف کرو خیمہ چھوڑنے والو
بُجھا نہیں ہے ابھی تو چراغ جلتا ہے
بے نشانی سے نشانی سے بھی پہلے کے ہیں
ہم کہ آدم کی کہانی سے بھی پہلے کے ہیں
کچھ تِرے ملنے ملانے سے بھی نِیت بدلی
کچھ بخارات تو پانی سے بھی پہلے کے پیں
اس کٹاؤ میں کناروں کا کوئی دخل نہیں
یہ تو دریا کی روانی سے بھی پہلے کے ہیں
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
انتظار کیوں
نہ آ سکا قرار کیوں
چراغ موج آب کے سپرد کر چکی ہو تم
تو اب یہ انتظار کیوں
ادا جعفری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
تنہائی میری
دُھندلا دیتی ہے اکثر
بینائی میری
رحمت یوسفزئی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
دل کے آنگن میں
تیری یاد کی گرمی سے
برف پگھلتی ہے
اسلم راجا
وہ زرد پھول جو گھر میں خراب ہو رہا تھا
چھوا جو میں نے تو کیسے گلاب ہو رہا تھا
اسی کو دیکھ کے ایمان لا رہے تھے لوگ
حسین چہرے کو اس کا ثواب ہو رہا تھا
یہ باقی جتنے بھی قصے ہیں، یہ کہانیاں ہیں
وہ چھو رہی تھی تو پانی شراب ہو رہا تھا
حالات حاضرہ
میں خبردار ہوں کہ تمہارے دماغ کی لائبریری میں موجود
جنیٹک معلومات کی ادھوری فائلیں قابل اعتماد نہیں
لہٰذا بیس یا پچیس سوالوں کے ذریعے
درست جواب پانے والے کھیل میں
تم مجھے کبھی نہیں بوجھ سکو گی
تری جانب سے ہمدم! آخری گھاؤ ضروری تھا
محبت کھیل تھی اور کھیل میں داؤ ضروری تھا
ہمیشہ پھول لے جاتی تھی میں، دشمن کی بستی میں
مِرے نزدیک الفت کا یہ پھیلاؤ ضروری تھا
تمہارے بعد میں نے دل لگی بھی دل لگا کر کی
تمہارے بعد میرے دل کا بہلاؤ ضروری تھا
بڑے کمرے سے بڑا سچ
کبھی بپھرے ہوئے سمندر میں ہمارا جی لبھاتا ہے
کبھی سوکھے ہوئے دریا ہمارا منہ چڑاتے ہیں
کبھی اونچی پہاڑی سے
کوئی گرتا ہوا چشمہ
ہمارا آئینہ بن کر ہمیں وہ سب دکھاتا ہے
پو پُھوٹی ہے رات کا تارا ڈُوب چلا
گُلفاموں سا شخص نیارا ڈوب چلا
دریاؤں نے رُخ بدلے ہیں بھاگ چلو
کچھ لمحوں میں شہر تمہارا ڈوب چلا
راستہ روکتی دنیا سے گھبراتا تھا
آخر اک دن ہمت ہارا، ڈوب چلا
سفرنامہ
جنت ہے بس ایک جہاں میں جس کو لوگ زمیں کہتے ہیں
اہلِ نظر اس کے ہر پتھر کو یاقوت نگیں کہتے ہیں
اہلِ محبت اپنی زباں میں اس کو خالِ بریں کہتے ہیں
خوشبو، باغ، طراوت، پنچھی
چشمے، جام، بہاریں، تتلی
اپنے ہمراہ محبت کے حوالے رکھنا
کتنا دشوار ہے اک روگ کو پالے رکھنا
اتنا آسان نہیں بند گلی میں رہنا
شہرِ تاریک میں یادوں کے اجالے رکھنا
ہم زیادہ کے طلبگار نہیں ہیں لیکن
وقت کچھ بہرِ ملاقات نکالے رکھنا
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
فاصلے
فاصلے بیکراں
اک کنول روپ ہے خواب کی جھیل میں
میں کہاں تُو کہاں
ادا جعفری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
شبنم روتی ہے
جیسے کوئی درد کہانی
آنسو ہوتی ہے
اسلم راجا
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
میری باتوں سے
سہما سہما ہے سورج
کتنی راتوں سے
رحمت یوسفزئی
اس کی پلکوں پہ کوئی خواب سجا رہنے دے
حبس بڑھ جائے گا اس در کو کُھلا رہنے دے
میرے مالک تو بھلے چھین لے گویائی مِری
میرے ہونٹوں پہ فقط ایک دُعا رہنے دے
میرے خوابوں کو بھٹکنے سے بچانے کے لیے
شب کی دہلیز پہ یادوں کا دِیا رہنے دے
ہم جو ہوتے ہیں کسی یاد کے باندھے ہوئے لوگ
ہم پہ الزامِ وفا یوں بھی بہت جچتا ہے
ہم کہ لوگوں میں علی بانٹے ہی اتنا گئے ہیں
وقت اپنے لیے بچتا ہے تو کم بچتا ہے
ہم نے تردیدِ ملامت تو کبھی کی ہی نہیں
جب کوئی لفظ کہا بھی ہے تو سینے سے کہا
محبت خواب جیسی ہے
کسی بھی آنکھ کی پتلی پہ چپکے سے
اترتی ہے، نشاں سا چھوڑ جاتی ہے
یقیں کے رنگ دھندلا کر
گماں سا چھوڑ جاتی ہے
محبت کا کوئی کلیہ، کوئی قانون
کبھی غمی کے نام پر کبھی خوشی کی آڑ میں
تباہ کر گیا مجھے وہ دوستی کی آڑ میں
وہ جب چلا گیا یہاں سے پھر مجھے خبر ہوئی
کہ موت پالتا رہا ہوں زندگی کی آڑ میں
وہ شخص بھی عجیب تھا عجیب اس کے شوق تھے
خدا تراشتا رہا صنم گری کی آڑ میں
الجھے بکھرے لوگ
میرے چوگرد بکھرے ہوئے لوگ ہیں
خود یہاں ہیں مگر
سوچ پنچھی کہیں دور صحراؤں میں
اپنی بے پر اڑانوں میں کھویا ہوا
بال چڑیا کا اجڑا ہوا گھونسلا
اور خیالات چمگادڑوں کی طرح ہیں
دھڑکتے دل کے لیے مسئلہ بنا ہوا تھا
وہ سامنے تھا مگر فاصلہ بنا ہوا تھا
اسے بھی سانس نہیں آ رہا تھا باتوں سے
ہماری چائے کا بھی ذائقہ بنا ہوا تھا
اس اپسرا نے فقط بال ہی تو کھولے تھے
مگر یہ شہر میں اک واقعہ بنا ہوا تھا
بدن سے کر کے تیمم قیام کر لیا ہے
نمازِ عشق میں دل کو امام کر لیا ہے
جنابِ قیس کے مرقد پہ رکھ کے ایک دِیا
٭ضریح چُوم کے جھک کر سلام کر لیا ہے
زباں پہ تالے لگائے گئے تو کیا، ہم نے
نظر نظر سے مِلا کر کلام کر لیا ہے
عشق میں فرصتِ مسلک نہیں دی جاتی ہے
آگ ہے آگ کو ٹھنڈک نہیں دی جاتی ہے
دھوپ میں جلتے درختوں کو دعا دے جاؤ
ان کے سر پر کوئی اجرک نہیں دی جاتی ہے
اس لیے دُکھ نہیں آتا ہے بتا کر کوئی
گھر جو اپنا ہو تو دستک نہیں دی جاتی ہے
سیاست
ابھی کل ہی کی بات ہے
تم میرے ساتھ نہیں تھے
تم اور تمہارے حواری مجھ سے متنفر تھے
میری حیثیت ایک غدار کی تھی
تم مجھ سے جنگ آزما تھے تاکہ میرے منصوبے تباہ کر سکو
بیکل دل کی بات
گزرے کل کی مردہ آنکھیں
آنے والے زندہ کل کی کوکھ سے خوشیاں چاٹ رہی ہیں
ماضی کے اندھے تالاب میں غوطہ زن ہوں
میری آنکھیں مستقبل کو کھوج رہی ہیں
میرے ہاتھ میں خوشیوں کی اک کونپل ہے
جوہر
یہ انسان کیا ہے؟
جواہر کا جوہر ہے
جسمانیت اور روحانیت کے مرکب میں
تحلیل ہو کر سُوئے ارتقاء بڑھ رہا ہے
ازل سے زمانے کو جس کی ضرورت رہی ہے
ابد تک رہے گی
ارتقاء
خاک پر اک بُوند ٹپکی
بُوند جم کر لوتھڑا
اس لوتھڑے میں ہڈیاں
پھر ہڈیوں پر ماس آیا
ماس جس پر نقش اُبھرے
ہر شے ستاروں کے مادے سے وجود میں آئی
کششِ ثقل حد سے بڑھتی چلی جائے تو
روشنی کی کرنیں خمیدہ ہوتے ہوتے لوٹ آتی ہیں
ضروری گیسوں کے ایٹم
مناقشے کے مثل کاٹ پیٹ کا شکار ہو جاتے ہیں
جس طرح بچپن سے نوجوانی کے عرصے میں داخل ہوتے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
التماس
نہیں رکو نہیں
یہ سارے خواب تتلیوں سے ہیں
انہیں چھوؤ نہیں
ادا جعفری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
جو نیند میں روتے ہیں
محسوس ہوا مجھ کو
سب درد میں ڈوبے ہیں
دلدار ہاشمی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
آنسو دیتا ہے
لمحہ تیری یادوں کا
چٹکی لیتا ہے
رحمت یوسفزئی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
کشمیر کہانی
ہم کو سنانے آتا ہے
جہلم کا پانی
اسلم راجا
میں تمہارے لیے نئے نظاِم شمسی کا انتخاب کر رہا ہوں
کائنات کی کہکشاؤں میں کئی ایک سیارے
اپنے اپنے سورجوں سے ہماری طرح جڑے ہوئے ہیں
ہمارا جذب اور بڑھا تو
باطن سے کوئی جذبہ بھی باہر نہیں نکل سکے گا
سبھی جذبات اور واقعات باطن بُرد ہوتے چلے جائیں گے
وحی
یاد ہے تم نے کہا تھا کہ پڑھو
یاد ہے تم نے کہا تھا کہ لکھو
یاد ہے تم نے بھلا کب یہ سب سکھایا تھا مجھے
اور میں سوچ کی اس غار کے اندر
کب سے بیٹھا ہوا
اک دعا خون میں تر ہوئی
کٹ گیا ہاتھ اور انگلیاں کھو گئیں
اک دعا خون میں تر ہوئی
تم پہ صد آفریں
علم کا وہ علم پھر بھی تھامے رہیں
تم کو معلوم ہے
تن پہ صحراؤں کی پوشاک پہن کر آئے
ہم کہ دریا تھے مگر خاک پہن کر آئے
صبح تعبیرِ اذیت کا لبادہ اوڑھے
چشمِ شب خوابِ المناک پہن کر آئے
اب وہ دن دُور نہیں ہیں کہ گلستاں میں بہار
اپنے تن پر خس و خاشاک پہن کر آئے
آشعوری منطقے
ہزاروں برس کے پرانے ہڑپوں کے
مردہ مکینو
تمہیں کیا خبر ہے بھلا
آشعوری سماوات کے منطقوں کی
جہاں جگنووں کے کروڑوں حسیں کارواں
شہر بینا کے لوگ
دست شفقت کٹا اور ہوا میں معلق ہوا
آنکھ جھپکی تو پلکوں پہ ٹھہری ہوئی خواہشیں دھول میں اٹ گئیں
شہر بینا کی سڑکوں پہ نا بینا چلنے لگے
ایک نادیدہ تلوار دل میں اترنے لگی
پاؤں کی دھول زنجیر بن کر چھنکنے لگی
مجھ سے ناراض نہ ہو
تجھ سے بے چینی کو ٹکرانے کی نیت تو نہیں
تجھ سے گھبرائے ہوئے دن کے تعارف میں میری مرضی
نہیں ہے شامل
تیری ویران خیالی میں میرا ہاتھ نہیں
میں تو کملائی ہوئی شاخ کی مانند ہوں بہت افسردہ
کنارہ کہیں بھی نہیں ہے
موج کی ماتمی لے کا کہنا ہے یہ
اہل فرقت کے ماتھے پہ میری رفاقت لکھی ہے
فقط ایک رستہ کھلا ہے
مگر دور تک
دلدلوں سے اٹا ہے
لگائی کس نے صدا پر صدا کوئی تو تھا
جو تُو نہیں تو نہاں دوسرا کوئی تو تھا
درونِ گنبدِ جاں شور سا مچا ہوا ہے
نکل کے سینے سے میرے گیا کوئی تو تھا
کسی نے مجھ سے کہا پھر سے آ گیا ہے تُو
تمہارے شہر میں پہچانتا کوئی تو تھا
خدا مجھ سے ناراض ہو گیا ہے
خدا مجھ سے ناراض ہو کر کہیں چال گیا ہے
خدا کو کہیں اغوا کرنے والے نہ اٹھا لے گئے ہوں
خدا کو کہیں بیگار میں نہ پکڑ لیا گیا ہو
خدا مجھ سے ناراض ہو گیا ہے
میں نے خدا کے درخت سے ایک شاخ توڑ لی تھی
ہونے کو تو اس شہر میں کیا کیا نہیں ہوتا
حیرت ہے کہ اک شخص ہمارا نہیں ہوتا
دل صورتِ دریا ہے تو دریا کے کنارے
وہ بھی چلا آتا ہے جو پیاسا نہیں ہوتا
ہر شکل شریفانہ تو ہو سکتی ہے لیکن
ہر شخص حقیقت میں فرشتہ نہیں ہوتا
آخری سفر میں آخری خواہش
چاند گاڑی سے کیسی نظر آ رہی ہے زمیں
دیکھنے دے
عین ممکن ہے اس مرتبہ چاند سے واپسی خواب ہو
عین ممکن ہے اس مرتبہ واپسی ہو بھی جائے تو ہم
اس زمیں پر نہ اُتریں
جانے والوں کو کبھی مڑ کے پکارا نہ کِیا
اور اگر کر بھی لیا دوست! دوبارہ نہ کیا
دائمی قحطِ محبت سے بنا لی ہم نے
واجبی عہدِ محبت پہ گزارہ نہ کیا
میں اسی لہجۂ مانوس کو حل مانتی تھی
جو تِرے زعم نے اس لمحہ گوارہ نہ کیا
ایک مختصر نظم
یہ بھی اچھا ہوا
وہ کسی اور ہی شہر میں جا بسی
اتفاقاً سہی
ملتے رہتے جو ہم
راکھ کے ڈھیر سے اک چنگاری کبھی
ایک شعلے کے پیکر میں ڈھل سکتی تھی
کسی سے کس لیے ہم شکوۂ خدا کریں گے
تُو جا رہا ہے تو تیرے لیے دعا کریں گے
مداریوں کے تصرف میں آ گیا ہے ہجوم
کسی پرانے تماشے کو پھر نیا کریں گے
یہ بار بار محبت جتانے والے لوگ
لگے گی آگ تو دامن سے بھی ہوا کریں گے
آج پھر برسرِ پیکار ہوں، مجھ سے بچ کر
میں محبت کا علمدار ہوں، مجھ سے بچ کر
وہ کہ جس میں نہ ملی ہیر کبھی رانجھے کو
اس کہانی کا ہی کردار ہوں، مجھ سے بچ کر
اپنے جیسا ہی بنا لوں گا دیوانہ سب کو
میں اداسی کا پرستار ہوں، مجھ سے بچ کر
میرا کوئی دوست نہیں
چیخیں مجھے کبھی رہا نہیں کرتیں
مجھے معلوم ہے
ہر منظر میں ایک چیخ چھپی ہے
میں جہاں بھی جاتا ہوں
کوئی نہ کوئی چیخ مجھے پہچان لیتی ہے
شامِ الم بھی گزری پہلو بدل بدل کر
روتا رہا ہے یہ دل پہروں مچل مچل کر
منزل کی جستجو میں پہنچے کہاں کہاں ہم
دیکھا کیے تماشہ رستے بدل بدل کر
شہرِ وفا میں ہم نے سب کچھ لٹا دیا ہے
یہ بات ان سے کہنا لوگو سنبھل سنبھل کر
دونوں اک دوجے کی ضد پر جاگتے ہیں
اک تارہ اور آنکھ برابر جاگتے ہیں
عشق نگر کے دیوانوں کا دعویٰ ہے
ہم اس کالی رات سے بہتر جاگتے ہیں
دن ہوتے ہی جانے کوئی کس سمت کو جائے
ایک ہی رات ہے آؤ مل کر جاگتے ہیں
میں نے اُس سے کچھ نئیں کہنا
یہ بھی نہیں کہ تم بِن دل کو چین نہیں ہے
راتوں کو آرام نہیں ہے
آنکھیں تیری کال کی آس میں فون پہ جم کر رہ جاتی ہیں
سانسیں تھم کر رہ جاتی ہیں
میں نے اُس سے کچھ نئیں کہنا
تیز لہکتی بارش ہے، رسی پر کپڑے بھیگتے ہیں
آؤ ہم بھی ایسے بھیگیں جیسے بچے بھیگتے ہیں
سرخ سنہری بیلڑیوں پر نقرئی کلیاں کھل اٹھیں
ایک گلابی سرمستی میں پھول اور پتے بھیگتے ہیں
دیکھو یوں بھیگا جاتا ہے شام کے سنگِ مرمر پر
دھوپ اور بارش ساتھ ہیں دونوں اور اکٹھے بھیگتے ہیں
تیرے کاندھوں پہ صرف سر ہے میاں
میرے کاندھوں پہ میرا گھر ہے میاں
موج مستی تمہیں مبارک ہو
جاں مسائل کی رہگزر ہے میاں
چھالے پچھلے سفر کو روتے ہیں
اس پہ درپیش پھر سفر ہے میاں
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
آس
دیپک بھی جلا رکھنا
شاید کوئی پردیسی گھر لوٹ کے آ جائے
گجرا بھی بنا رکھنا
ادا جعفری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
ٹین کی چھت پہ سوکھنے کے لیے
صبح پھیلائے دھوپ کی چادر
شام آئے سمیٹنے کے لیے
نصیر احمد ناصر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
شہر نے پھر سے ایک گاؤں پر
ایک کالی کمند پھینکی ہے
لوگ پکی سڑک کہتے ہیں
اسلم کولسری
حرامی
قدرت کے پرانے بھیدوں میں جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے
اس بھید کی تو رکھوالی کر
اپنے جیون کے سہارے کو اس جگ میں اپنا کر نہ سکی
یہ کم ہے کوئی دن آئے گا، وہ نقش بنانے والی ہے
جو پہلے پُھول ہے کیاری کا
سوال
خواب تو نہیں مرتے
خواب دیکھتی آنکھیں
جانے کیسے مرتی ہیں
اعجاز رضوی
جدید لوحِ محفوظ
لوحِ محفوظ کیا ہے، کہاں ہے
ہمارا گماں تھا
نیلے آکاش سے بھی بڑی ایک چادر ہے
جس پر
ازل سے ابد تک کی ہر اک کہانی رقم ہو چکی ہے
چاند کی بڑھیا
ماں سے اک بچے نے پوچھا
چاند میں یہ دھبا کیسا ہے
ماں یہ بولی؛
چندا بیٹے
جس کو تم دھبا کہتے ہو، وہ تو اک پاگل بڑھیا ہے
حالات حاضرہ
جن پھولوں کو بر وقت پانی
اور کھاد دینے والا کوئی نہیں ہوتا
بالآخر وہ شکاری بن کر
اپنے قریب سے گزرنے والے والے
کیڑے مکوڑوں کو ہڑپ کرنے لگتے ہیں
یہ تِرے نغمے، تِرے قہقہے پھیکے پھیکے
یہ تِرے خال یہ خط زرد سے دُھندلے دُھندلے
دے رہے ہیں تِری عفّت کی تباہی کا ثبوت
ہے تِرا رنگ، تِرے دل کی سیاہی کا ثبوت
غیظ میں کھوکھلے جوبن کی اٹھانوں کو نہ کھینچ
سجا ہوا تِرا کمرا ہے خواب گاِہ جمیل
میں ملوں گا تمہیں
جب تمہاری آنکھوں سے مصروفیت کی گرد ہٹے گی
جب تمہارا دھیان بٹے گا
اور وقت گزرے گا تیز رفتار گاڑی کی مانند
اپنے آپ میں گم، بھیڑ سے گزرتے ہوئے
یا جب تمہارے چہرے پر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
پھر پھول کھلیں شاید
اس بار تو لگتا ہے
ہم پھر نہ ملیں شاید
ریحانہ قمر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
صحرا صحرا یاد
میری آنکھوں میں اُتری
اشکوں کی بارات
خاور چودھری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
میں اکثر بھول جاتا ہوں
کہ میں انسان ہوں افضل
جو اشرف ہے جہاں بھر میں
افضل سراج
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
لاگ میلوں میں بھی گم ہو کر ملے ہیں بارہا
داستانوں کے دلچسپ سے اک موڑ پر
یوں ہمیشہ کے لیے بھی کیا بچھڑتا ہے کوئی
گلزار
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
آگ کیسی ہے میرے اندر یہ
تیرے لہجے نے چھین لی سردی
بانجھ سا ہو گیا دسمبر یہ
نعیم ضرار
بکھرے بالوں میں زرد رو چہرہ
کوئی پت جھڑ کی شام ہو جیسے
مضمحل لفظ، مضطرب لہجہ
اس پہ باتیں بھی راگ دیپک سی
اس قدر پُر ملال تھیں آنکھیں
جس کو دیکھیں اداس کر ڈالیں
نہ ہو حیات کا حاصل تو بندگی کیا ہے
جو بے نیاز ہو سجدوں سے زندگی کیا ہے
سدا بہار چمن میں بھی گر نشیمن ہو
تِرے بغیر جو گزرے وہ زندگی کیا ہے
خدا کو مان کے خود کو خدا سمجھتا ہے
انا پرستی سراسر ہے،۔ بندگی کیا ہے
حوصلے اس لیے بنیاد سے ہِل جاتے ہیں
عشق کی جنگ میں بازو نہیں دل جاتے ہیں
تُو مِرا ساتھ نِبھا، جسم سے گمراہ نہ کر
یہ کھلونے مجھے بازار سے مِل جاتے ہیں
زخم وہ پھول ہیں جن کو نہیں درکار بہار
سخت موسم ہو تو یہ اور بھی کِھل جاتے ہیں
دور سے بیٹھ کے لمحوں میں کم دوری کرتے ہیں
پھول دکھا کر ہم اس کی مشہوری کرتے ہیں
باقی کام بھی رفتہ رفتہ ہو ہی جائیں گے
گلے ملو پہلے تو دنیا پوری کرتے ہیں
میری دعائیں، میرا کلام اور میرے سات سلام
ان کے لیے جو گرمی میں مزدوری کرتے ہیں