وقفِ فریاد بھی نہیں رہتا
دل مگر شاد بھی نہیں رہتا
ایک وہ ہے کہ بھولتا ہی نہیں
اور کچھ یاد بھی نہیں رہتا
جب جہالت کا دور دورہ ہو
کوئی استاد بھی نہیں رہتا
اتنا تنہا ہوں میں کہ لگتا ہے
ساتھ ہمزاد بھی نہیں رہتا
جب خلف، ناخلف سے ہوتے ہیں
ذکرِ اجداد بھی نہیں رہتا
جس میں آسیب ہجر بستا ہو
گھر وہ آباد بھی نہیں رہتا
جب بہاریں اجاڑتی ہیں چمن
پِھر تو صیاد بھی نہیں رہتا
جِس کو آزادیوں کی قید ملے
وہ تو آزاد بھی نہیں رہتا
باقر زیدی
No comments:
Post a Comment