یہ سلسلۂ ہجر کبھی رونما نہ ہو
میں چاہتا ہوں تجھ کو کوئی حادثہ نہ ہو
یہ ہاتھ تجھ کو چُھو کے کہیں کٹ چکے نہ ہوں
یہ جسم تجھ کو چُھو کے کہیں جل رہا نہ ہو
ہم لوگ ایک ساتھ رہیں مدتوں تلک
گر وقت کی کتاب میں یہ ارتقاء نہ ہو
ایسا نہ ہو کہ تجھ میں صدا گونجنے لگے
وحشت زدہ مکان سے یوں آشنا نہ ہو
کیسے کسی کی آنکھ نہ روئے کسی کے بعد
کیسے کسی کے غم میں کوئی مبتلا نہ ہو
ممکن ہے تیرا ہجر مِرا رزق چھین لے
ممکن ہے تیرے ساتھ کبھی رابطہ نہ ہو
آفاق حاشر
No comments:
Post a Comment