پھول اُن کے لیے ہیں تو سبھی خار ہمارے
کس موڑ پہ لے آئے ہمیں یار ہمارے
اب آنکھ بھی جھپکیں تو بدل جاتی ہے دنیا
منصوبے چلے جاتے ہیں بے کار ہمارے
کشتی کو سنبھالیں بھی تو اب کیسے سنبھالیں
لہروں میں کہیں بہ گئے پتوار ہمارے
دنیا کے جھمیلوں میں کہیں گم ہوئے ورنہ
کچھ دوست ہوا کرتے تھے جی دار ہمارے
چلتی ہیں ہوائیں تو کبھی ہوتی ہے بارش
رستے کبھی رہتے نہیں ہموار ہمارے
ویسے تو ظفر اور کوئی آ نہیں سکتا
شہکار ہے دیکھے کوئی شہکار ہمارے
ظفر محی الدین
No comments:
Post a Comment