تمسخر ان کا حقائق کے ساتھ باقی ہے
طلوع صبح یہ کہتے ہیں رات باقی ہے
ہمارا ربط حریفوں کے ساتھ باقی ہے
اسی سبب سے نشاط حیات باقی ہے
اگر چہ سلسلۂ مشکلات باقی ہے
مِرے لبوں پہ نوائے حیات باقی ہے
کوئی اٹھا ہے تہجد کو رات باقی ہے
یہ شخص ہے وہی جس پر زکات باقی ہے
چہک طیور ہے تو مہک ہے پھولوں کی
ہزار رنگ میں رقص حیات باقی ہے
جہاں حرف معطل ہو یہ نہیں ممکن
جہاں تلک یہ قلم اور دوات باقی ہے
یہ سمجھو کہہ دیا آمنا مل گئی چهٹی
ابهی تو سلسلۂ مشکلات باقی ہے
یہ مانا دعوئ توحید لب پہ ہے پهر بهی
قصیدہ خوانئ لات و منات باقی ہے
ہماری آس کبھی ٹوٹتی نہیں فطرت
امید صبح طرب تا حیات باقی ہے
فطرت بھٹکلی
محمد حسین فطرت
No comments:
Post a Comment