Sunday, 26 March 2023

تمسخر ان کا حقائق کے ساتھ باقی ہے

 تمسخر ان کا حقائق کے ساتھ باقی ہے

طلوع صبح یہ کہتے ہیں رات باقی ہے

ہمارا ربط حریفوں کے ساتھ باقی ہے

اسی سبب سے نشاط حیات باقی ہے

اگر چہ سلسلۂ مشکلات باقی ہے

مِرے لبوں پہ نوائے حیات باقی ہے

کوئی اٹھا ہے تہجد کو رات باقی ہے

یہ شخص ہے وہی جس پر زکات باقی ہے

چہک طیور ہے تو مہک ہے پھولوں کی

ہزار رنگ میں رقص حیات باقی ہے

جہاں حرف معطل ہو یہ نہیں ممکن

جہاں تلک یہ قلم اور دوات باقی ہے

یہ سمجھو کہہ دیا آمنا مل گئی چهٹی

ابهی تو سلسلۂ مشکلات باقی ہے

یہ مانا دعوئ توحید لب پہ ہے پهر بهی

قصیدہ خوانئ لات و منات باقی ہے

ہماری آس کبھی ٹوٹتی نہیں فطرت

امید صبح طرب تا حیات باقی ہے


فطرت بھٹکلی

محمد حسین فطرت

No comments:

Post a Comment