Tuesday, 28 March 2023

ہوا ہے بادباں ہے کوچ کرنے کا اشارا ہے

ہُوا ہے بادباں ہے کُوچ کرنے کا اشارا ہے

سرِ ساحل کسی نے آ کے چُپکے سے پُکارا ہے

میں اس کی روشنی میں راستہ کیا ڈھونڈ سکتی ہوں

گہے جلتا، گہے بُجھتا مِری قسمت کا تارا ہے

ہمیں مثلِ صدف جب ذات میں اپنی ہی رہنا ہے

تو پھر کیا فرق پڑتا ہے بھنور ہے یا کنارا ہے

ضرورت کیا ہمیں خود کو کہیں ملفوف رکھنے کی

حسابِ دل تو جو ہے تم پہ یکسر آشکارا ہے

اگرچہ مشعلیں محلوں میں پیہم جلتی رہتی ہیں

مِرے آنگن کا دیپک پر ہوا کو کب گوارا ہے

فقط یوں خانۂ دل پر نظر کرنے سے ڈرتے ہیں

خدا جانے کہاں تک ظُلمتِ شب کا اجارا ہے

ہمارے دم سے گُلشن میں خزائیں بھی بہاریں بھی

ہوا کے دوش پر بہتا ہر اک نغمہ ہمارا ہے


نمرہ شکیل

No comments:

Post a Comment