Wednesday, 29 March 2023

کیسا طویل ہجر تھا پھر بھی گیا نہیں ہے تو

 کیسا طویل ہجر تھا پھر بھی گیا نہیں ہے تُو

مجھ سے الگ سہی مگر مجھ سے جدا نہیں ہے تو

تُو مِری کائنات میں مجھ پہ گزرتا وقت ہے

چاہے مِرے سوا بھی ہو میرے سوا نہیں ہے تو

یہ کوئی اور پیار تھا وہ کوئی اور عشق ہے

تُو مِری جان ہے مگر میرا خدا نہیں ہے تو

بھید کبھی نہ کھل سکے تجھ پہ قدیم شہر کے

ہو کے گزر گیا مگر مجھ میں رہا نہیں ہے تو

پھر وہی اک سوال ہے، میرا عجیب حال ہے

تُو کبھی تھا بھی یا نہیں، خواب ہے یا نہیں ہے تو

خون میں جو فشار ہے، کیا کوئی پہلی بار ہے

پاؤں پسار، موج کر، دل میں نیا نہیں ہے تو

سارے وصال یافتہ ہجر کنندگاں میں ہیں

جن کو بھی مل گیا یہاں ان کو ملا نہیں ہے تو

تُو مِرے اور عشق کے بیچ کہاں سے آ گیا؟

ہے تو ضرور تُو یہاں پر بخدا نہیں ہے تو

نقش کھرچ کے رکھ دئیے وقت کی تیز دھار نے

بات تو دُکھ کی ہے مگر مجھ میں بچا نہیں ہے تو


سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment