کشمیر
نظارہ خوشرنگ ہے مگر یہ فضائیں اتنی ہراساں کیوں ہیں
بہشتِ ثانی ہے نام لیکن، مکین اتنے پریشاں کیوں ہیں
بہار چپ سی کھڑی ہے کب سے ہوا کا لہجہ ہے سرد اتنا
گلابی غنچے خود اپنی خوشبو بکھیرنے سے گریزاں کیوں ہیں
اے ارضِ کشمیر! تیری چادر، دریدہ کیوں ہے، بُریدہ کیوں ہے
بدن پہ کیونکر ہیں داغ اتنے، اور اس پہ اتنے نمایاں کیوں ہیں
لہو بکھرتا ہے جب چناروں کی ٹہنیوں کے ہرے بدن پر
ستارے گرتے ہیں کیوں وہاں پر، اندھیرے اتنے درخشاں کیوں ہیں
یہ کیا ستم ہے کہ تیری آہیں کسی بھی سامع تلک نہ جائیں
ہیں بانجھ سارے حروف کیونکر، خموش سارے دبستاں کیوں ہیں
تِری شفق کے نصیب میں ہے سپوتِ کشمیر کا لہو کیوں
جوان عمری کا غازہ اوڑھے ہوئے یہ خاکِ شہیداں کیوں ہے
تڑپ اٹھی ہے کچھ ایسے نیلم!، غزل سے آواز آ رہی ہے
جہاں دھڑکتی تھی زندگی خود، وہ آج شہرِ خموشاں کیوں ہے
نیلم بھٹی
No comments:
Post a Comment