ترکِ تعلقات کا وعدہ نہیں کیا
وعدہ اگر کِیا اسے پورا نہیں کیا
اک کام تھا ضروری ضروری تھا ایک کام
دل مطمئن نہیں تھا، لہٰذا نہیں کیا
جیسی ملی ہے ویسی گزاری ہے زندگی
ہم نے کہیں بھی جُھوٹا دکھاوا نہیں کیا
خود کو کئی مقام پہ خم تو کیا ضرور
لیکن کسی کے رو برو سجدہ نہیں کیا
اپنی بساط سے بھی بڑھا کر کے خواہشات
اپنے دُکھوں میں اور اضافہ نہیں کیا
دھوکا کسی کے ساتھ جو کرنا پڑا اگر
وہ بھی ضرورتوں سے زیادہ نہیں کیا
اک بار بارگاہِ الٰہی میں کی دعا
پھر اس سے دُوجی بار تقاضہ نہیں کیا
جس سے بھی ہے فقط وہ اصولوں کی جنگ ہے
ورنہ کبھی کسی سے بھی جھگڑا نہیں کیا
رختِ سفر میں سب کو برابر کیا شریک
تقسیم زادِ راہ انوکھا نہیں کیا
رخسار ناظم آبادی
No comments:
Post a Comment