اس خرابے سے کہیں دور نکلنے کے لیے
کوئی تیار نہیں ساتھ میں چلنے کے لیے
بھیج سکتا تھا میں اک لاش کے بدلے لاشیں
پھول بھیجے ہیں روایت کو بدلنے کے لیے
پہلی کوشش میں خسارہ ہی ہوا تھا اتنا
دوسرا عشق ضروری تھا سنبھلنے کے لیے
میں بھی سینے میں کئی بوجھ لیے بیٹھا ہوں
آ مِرے ساتھ ذرا زہر اگلنے کے لیے
تیرے آنے سے پنپنے لگیں خوشیاں، ورنہ
رنج ہوتے تھے یہاں پھولنے پھلنے کے لیے
اس طرح سر پہ رکھا وقت نے دستِ شفقت
سانحے گود میں آ بیٹھے ہیں پلنے کے لیے
میں وہ دریا ہوں جو صدیوں سے جما ہے ساحر
دھوپ ہی دھوپ ہے درکار پگھلنے کے لیے
جہانزیب ساحر
No comments:
Post a Comment