ہم آڑے تِرچھے مکانوں کی
چھتوں سے ٹپکتے لوگ
بارشوں کے قہر میں
سوکھے شجر بن کر تیرتے ہوئے
اپنی سانسوں کی لکڑیاں جلاتے
دُھویں سے آکسیجن اٹھاتے
کچی اینٹوں کی تھالیوں سے
لاشوں کا رزق ڈھونڈتے ہوئے
مٹی سے ساز باز کرتے
ہم بوسیدہ دُھنوں پر
وطن کے زنگ آلود گیت
گُنگناتے ہوئے
پرچموں کے دھاگوں سے
اَدھ مَری آنکھوں میں
سلائیاں ڈالتے
پانیوں کی آگ میں
جل کر بھسم ہو رہے ہیں
ہمارے حق میں قیامت بُلا لی جائے
سدرہ سحر عمران
No comments:
Post a Comment