کسی درخت سے جب پنچھی پیار لیتے ہیں
پرانے زخم نیا روپ دھار لیتے ہیں
ہم ایسے لوگ جنہیں درد سے محبت ہے
خرید پائیں نہ دُکھ تو، اُدھار لیتے ہیں
عمومی طور پہ راتیں یونہی گزرتی ہیں
شدید روتے ہیں، اُس کو پُکار لیتے ہیں
یہاں پہ لمحہ بسر کرنا بھی اذیت ہے
حیات کیسے یہاں سب گزار لیتے ہیں؟
کبھی جو روح اداسی کے زیرِ تاب آئے
ہم آپ کو سوچتے ہیں، سب سنوار لیتے ہیں
شوزب حکیم
No comments:
Post a Comment