بے ربط
آنکھ بوجھل ہوئی
زرد پتے ہوا میں بکھرنے لگے
میں تری سمت آگے بڑھا اور پھر
یوں لگا جیسے یکدم اندھیرا سا چھانے لگا چار سُو
دیکھتے دیکھتے گھپ اندھیرا ہوا
میں تجھے دیکھتا رہ گیا
تیری تصویر جب دیکھتے دیکھتے
گھپ اندھیرے میں کھونے لگی تو بنا وقت ضائع کیے
احتیاطاً تجھے میں بھی اپنے تصور کی قرطاس پر
اک پرانے برش جو کہ خود بھی تصور کی معراج تھا
کو عجب بے قراری میں
عجلت زدہ ہاتھ میں لے کے ماہر مصور کی مانند ملنے لگا
پھر کچھ ایسا ہوا
سب بدلنے لگا
دیکھتے دیکھتے گھپ اندھیرا چھٹا
اور ہر سُو اجالا ہوا
پھر تری سمت نظریں اٹھیں
ایک لمحہ تو معکوس قرطاس پر
تیرے چہرے پہ ٹھہری رہیں اور پھر
تیری پیشانی کے ٹھیک اوپر تری مانگ
سیدھی سڑک کے مشابہ ترے گیسوؤں سے گزرتی دِکھی
اور پھر ایک مفلس غریب الوطن کی طرح
روشنی سے مزین سڑک پر خراماں خراماں چلا
اور پھر یوں ہوا کہ
مسافر گھنے گیسوؤں میں کہیں کھو گیا
شبیر احرام
No comments:
Post a Comment