سمندروں سا بہاؤ تباہ کر دے گا
ہمیں یہ تم سے لگاؤ تباہ کر دے گا
کسی گھڑی بھی میسر نہیں سکوں دل کو
یہ خواہشوں کا الاؤ تباہ کر دے گا
وہ بے وفا ہے، ستمگر ہے، بے مروت ہے
اسے نہ اپنا بناؤ، تباہ کر دے گا
امیرِ شہر کے ہاتھوں کو روکنا ہو گا
یہ حد سے بڑھ کے جھکاؤ تباہ کر دے گا
اے میرے دل تِری منزل ابھی نہیں آئی
یہ راستے میں پڑاؤ تباہ کر دے گا
تمھیں کسی سے محبت کبھی جو ہو جائے
زمانے کو نہ بتاؤ، تباہ کر دے گا
میں زندگی کے سبھی زخم ہنس کے سہہ لوں گا
تمہارے ہجر کا گھاؤ تباہ کر دے گا
میں اپنے غم میں ہی ہلکان ہو رہا ہوں نوید
تم اپنا غم نہ سناؤ، تباہ کر دے گا
نوید عباس
No comments:
Post a Comment