Sunday, 26 March 2023

سمندروں سا بہاؤ تباہ کر دے گا

 سمندروں سا بہاؤ تباہ کر دے گا

ہمیں یہ تم سے لگاؤ تباہ کر دے گا

کسی گھڑی بھی میسر نہیں سکوں دل کو

یہ خواہشوں کا الاؤ تباہ کر دے گا

وہ بے وفا ہے، ستمگر ہے، بے مروت ہے

اسے نہ اپنا بناؤ، تباہ کر دے گا

امیرِ شہر کے ہاتھوں کو روکنا ہو گا

یہ حد سے بڑھ کے جھکاؤ تباہ کر دے گا

اے میرے دل تِری منزل ابھی نہیں آئی

یہ راستے میں پڑاؤ تباہ کر دے گا

تمھیں کسی سے محبت کبھی جو ہو جائے

زمانے کو نہ بتاؤ، تباہ کر دے گا

میں زندگی کے سبھی زخم ہنس کے سہہ لوں گا

تمہارے ہجر کا گھاؤ تباہ کر دے گا

میں اپنے غم میں ہی ہلکان ہو رہا ہوں نوید

تم اپنا غم نہ سناؤ، تباہ کر دے گا


نوید عباس

No comments:

Post a Comment