سکینت
کون سے لوگ تھے
بیٹیوں کی سعادت سے محروم تھے
ٹکڑیوں میں بٹے ریوڑوں کی طرح
عورتیں
جیسے انسانیت کے بھی زمرے میں شامل نہ تھیں
جن کو جینے کی بنیادی آسائشیں تک بھی حاصل نہ تھیں
زندہ درگور تھیں
عصبیت کوٹ کر جیسے ان کے دماغوں میں بھر دی گئی
حق و ناحق کی پہچان تک چھن گئی
جن کے ہاتھوں میں اپنے بنائے ہوئے
خاک لکڑی کے بے آسرا کچھ صنم آ گئے
رب کی رحمت ان اندھوں پہ برسی
لپیٹے میں عرب و عجم گئے
فیض جاری ہوا
اور فرشتوں کی کمروں میں خم آ گئے
کیا للک تھی کہ سب جان دینے کو تیار تھے
جب مُحِب اور محبوب ملنے لگے
اور فرشتوں کے پر اس جگہ جا کے جلنے لگے
سارے عالم، خلائق سبھی رشک کرنے لگے
ان کے صدقے تمہیں یہ غنیمت ملی
کچھ نہ کچھ آگہی مل گئی
راستوں سے محبت ملی
روشنی مل گئی
حنا عنبرین
No comments:
Post a Comment