شجر نے دھوپ نگل کر بھری ہے ٹھنڈی آہ
فنا کی آگ سے نکلی یہ سردیاں دیکھو
پلک جھپکتے ہی سینے سے دل اُڑا لے جو
نگاہِ نرگسِ شہلا کی پُھرتیاں دیکھو
خلائے ذات میں وحشت کی جلوہ زاری ہے
ہجومِ کرب سے سانسوں کی ہچکیاں دیکھو
خزاں رسیدگی میری ہنسا رہی تھی انہیں
ملا عروج تو یاروں کی تلخیاں دیکھو
تنِ غریب کو عُریاں اگر نہ دیکھ سکو
جو بج رہی ہیں فصیلوں پہ تالیاں، دیکھو
یہ تنکا تنکا بکھرنے کا منظرِ دلکش
فضا میں تیرتی گُلشن کی دھجیاں دیکھو
غلام مصطفیٰ دائم
No comments:
Post a Comment