ہم نے مٹی کی محبت میں بغاوت نہیں کی
لاکھ مصلوب ہوئے پر کہیں ہجرت نہیں کی
اب نہیں تو سرِ محشر ہی یہ اٹھے گا سوال
منصفِ وقت نے انصاف کی جرأت نہیں کی
محتسب میرا کسی اور کا ہے حاشیہ گر
اس نے بے وجہ تو مجھ پر یہ عنایت نہیں کی
ہم سرِ دار جو پہنچے تو سبھی اپنے تھے
جس نے مصلوب کیا اس سے بھی نفرت نہیں کی
اس کو بھی دعویٰ ولایت کا مِرے عہد میں ہے
عمر بھر جس نے کبھی کوئی ریاضت نہیں کی
بس گئی ہے میرے آنگن میں دسمبر کی وہ رات
اپنے سینے سے لگا رکھی ہے، رخصت نہیں کی
ان کو مطلوب تھی اک جھوٹی گواہی مجھ سے
اور میں مجرم تھا کہ میں نے اعانت نہیں کی
ساتھ جائے گا تمہارے ہی یہ اعزاز حسن
عمر بھر لفظ چُنے اور خیانت نہیں کی
فواد حسن فواد
No comments:
Post a Comment