Monday, 27 March 2023

ہم نے مٹی کی محبت میں بغاوت نہیں کی

ہم نے مٹی کی محبت میں بغاوت نہیں کی

لاکھ مصلوب ہوئے پر کہیں ہجرت نہیں کی

اب نہیں تو سرِ محشر ہی یہ اٹھے گا سوال

منصفِ وقت نے انصاف کی جرأت نہیں کی

محتسب میرا کسی اور کا ہے حاشیہ گر

اس نے بے وجہ تو مجھ پر یہ عنایت نہیں کی

ہم سرِ دار جو پہنچے تو سبھی اپنے تھے

جس نے مصلوب کیا اس سے بھی نفرت نہیں کی

اس کو بھی دعویٰ ولایت کا مِرے عہد میں ہے

عمر بھر جس نے کبھی کوئی ریاضت نہیں کی

بس گئی ہے میرے آنگن میں دسمبر کی وہ رات

اپنے سینے سے لگا رکھی ہے، رخصت نہیں کی

ان کو مطلوب تھی اک جھوٹی گواہی مجھ سے

اور میں مجرم تھا کہ میں نے اعانت نہیں کی

ساتھ جائے گا تمہارے ہی یہ اعزاز حسن

عمر بھر لفظ چُنے اور خیانت نہیں کی


فواد حسن فواد

No comments:

Post a Comment