Wednesday, 29 March 2023

شہر سے نکلوں تو وحشت میں کمی آتی ہے

 شہر سے نکلوں تو وحشت میں کمی آتی ہے

ورنہ سینے سے ہر اک سانس دبی آتی ہے

شور تک ہی نہیں محدود زبانیں اپنی

ہم سے لوگوں کو خموشی بھی بڑی آتی ہے

فجر تک بند کواڑوں کی نگہداری کرو

پھر کہیں جا کے کوئی کھڑکی کھلی آتی ہے

اے محبت سے مُکرتے ہوئے معصوم سے شخص

تِری قسمت پہ مجھے یار ہنسی آتی ہے

پھر بھی کہتے ہو زمینوں پہ کہیں رزق نہیں

میرا کاسہ، تِری جھولی بھی بھری آتی ہے

عشق اس سے نہ سہی یہ بھی غنیمت ہے ہمیں

پوچھنے حال ہمارا تو کوئی آتی ہے

تم دہکتے ہوئے دن بارے مجھے پوچھتے ہو

میرے گھر رات بھی پتھرائی ہوئی آتی ہے

جس میں صحرائی بدن ناچتے ہیں رات گئے

شہر کے وسط میں اک ایسی گلی آتی ہے

ہجرِ دوران بھی کچھ بدلا نہیں ہے حیدر

آنکھ لگتی ہے مجھے نیند وہی آتی ہے


فقیہہ حیدر

No comments:

Post a Comment