شہر سے نکلوں تو وحشت میں کمی آتی ہے
ورنہ سینے سے ہر اک سانس دبی آتی ہے
شور تک ہی نہیں محدود زبانیں اپنی
ہم سے لوگوں کو خموشی بھی بڑی آتی ہے
فجر تک بند کواڑوں کی نگہداری کرو
پھر کہیں جا کے کوئی کھڑکی کھلی آتی ہے
اے محبت سے مُکرتے ہوئے معصوم سے شخص
تِری قسمت پہ مجھے یار ہنسی آتی ہے
پھر بھی کہتے ہو زمینوں پہ کہیں رزق نہیں
میرا کاسہ، تِری جھولی بھی بھری آتی ہے
عشق اس سے نہ سہی یہ بھی غنیمت ہے ہمیں
پوچھنے حال ہمارا تو کوئی آتی ہے
تم دہکتے ہوئے دن بارے مجھے پوچھتے ہو
میرے گھر رات بھی پتھرائی ہوئی آتی ہے
جس میں صحرائی بدن ناچتے ہیں رات گئے
شہر کے وسط میں اک ایسی گلی آتی ہے
ہجرِ دوران بھی کچھ بدلا نہیں ہے حیدر
آنکھ لگتی ہے مجھے نیند وہی آتی ہے
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment