ہمارے علماء
جاہلوں کو نہیں عالم سے ملاؤ لوگو
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگو
کر رہا ہوں میں رقم نظم بنامِ علماء
حکمتوں سے ہے بھرا اب بھی کلامِ علماء
خُلق و تہذیب کی صورت میں پیامِ علماء
ہے مِرا فخر کہ ہوں میں بھی غلامِ علماء
چھوڑ کے کِبر درِ علم پہ آؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
دے دیا دین کو ان لوگوں نے کنبہ اپنا
دیں کی خاطر ہی تو چھوڑا ہے قبیلہ اپنا
عمر بخشی ہے دیا زیست کا لمحہ اپنا
لوگ انھیں چھوڑ کے دیکھا کئے اپنا اپنا
کیا یہی ان کا تھا انعام بتاؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
بابِ عالم کی طرف جانا بقولِ احمدﷺ
بخش دیتا ہے مِرے ضعفِ کلامی کو سند
دِیں بچانا ہی ہے ان لوگوں کا پہلا مقصد
ان کی خدمت سے ہی ہوتی ہے شریعت کی مدد
محترم جانو انہیں عظمتیں پاؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
سالوں پڑھتے ہیں تو عرفان انہیں ملتا ہے
کچھ نہیں ملتا ہے، یزدان انہیں ملتا ہے
کھوٹے سکے نہیں قرآن انہیں ملتا ہے
آج بھی جھک کے ہر انسان انھیں ملتا ہے
ان کی دہلیز سے لَو تم بھی لگاؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
ان کے ہر قول کے پیچھے ہے روایت کی مدد
ایسے لوگوں نے ہی سمجھا ہے قل ہو اللہ احد
ان کی توصیف لکھوں کیسے یہ ہیں خارجِ حد
ہو گیا اور قد آور مِرے افکار کا قد
ان کی عزت کرو قد اپنا بڑھاؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
رابطہ ان کا اسی چشمۂ فیضان سے ہے
جن کے ہر فعل کی تائید بھی قرآن سے ہے
فیصلہ جن کا ہر اک مرضئ یزدان سے ہے
رشتۂ شعر و سخن میرا بھی سلمان سے ہے
اس طرف ایک قدم تم بھی برھاؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
ان کی چوکھٹ پہ جبیں سائی کا انعام ملا
جن کا فیضان زمانے میں سدا عام ملا
جن کے قدموں پڑا کنبۂ اصنام ملا
جن کے بچوں کی بدولت ہی تو اسلام ملا
بات یہ پورے زمانے کو بتاؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
بات سچی ہے کہ یہ لوگ ظہیرِ مولا
بھٹکے لوگوں کو دکھاتے رہے سیدھا رستہ
ہاں مگر جب بھی کبھی رنج نے ان کو گھیرا
یوسفِ فاطمہ زھراؑ پئے امداد برھا
تم بھی کردار کچھ ایسا ہی بناؤ لوگوں
کچھ تناسب تو رکھو شرم تو کھاؤ لوگوں
ظہیر الہ آبادی
No comments:
Post a Comment