ابھی یہ طے تو نہیں ہے کہ کیا لگاؤں گا
پر اس زمین پہ پودا نیا لگاؤں گا
غبار حد سے بڑھے گا فسردگی کا تو میں
اکیلی شام میں اک قہقہہ لگاؤں گا
اگرچہ اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں
اسے میں پھر بھی مکمل صدا لگاؤں گا
کروں گا دور سے اس پھول کی نگہداری
اور اس کے گرد فصیلِ دعا لگاؤں گا
میں خاندان کا البم اٹھاؤں گا اور پھر
بچھڑنے والوں پہ اک دائرہ لگاؤں گا
اٹھا کے اشک میں دل بانجھ خاک سے اس کی
یہ بیج اب کسی اچھی جگہ لگاؤں گا
ابھی میں زخم کی ہیئت تو دیکھ لوں اے دوست
نہیں بھرے گا تو خاکِ شفا لگاؤں گا
تجمل کاظمی
No comments:
Post a Comment