Wednesday, 29 March 2023

جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں

 جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں 

عشق تو وہ ہے جس میں ناموجود میسر آ جاتے ہیں 

جانے کیا باتیں کرتی ہیں دن بھر آپس میں دیواریں 

دروازے پر قُفل لگا کر ہم تو دفتر آ جاتے ہیں 

کام مکمل کرنے سے بھی شام مکمل کب ہوتی ہے 

ایک پرندہ رہ جاتا ہے، باقی سب گھر آ جاتے ہیں 

اپنے دل میں گیند چھپا کر ان میں شامل ہو جاتا ہوں 

ڈھونڈتے ڈھونڈتے سارے بچے میرے اندر آ جاتے ہیں 

میم محبت پڑھتے پڑھتے، لکھتے لکھتے کاف کہانی 

بیٹھے بیٹھے اس مکتب میں خاک برابر آ جاتے ہیں 

روز نکل جاتے ہیں خالی گھر سے خالی دل کو لے کر 

اور اپنی خالی تُربت پر پُھول سجا کر آ جاتے ہیں 

خاک میں اُنگلی پھیرتے رہنا نقش بنانا وحشت لکھنا 

ان وقتوں کے چند نشاں اب بھی کوزوں پر آ جاتے ہیں 

نام کسی کا رٹتے رٹتے ایک گِرہ سی پڑ جاتی ہے 

جن کا کوئی نام نہیں وہ لوگ زباں پر آ جاتے ہیں 

پھر بستر سے اٹھنے کی بھی مہلت کب ملتی ہے عادل

نیند میں آتی ہیں آوازیں خواب میں لشکر آ جاتے ہیں 


ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment