فقط محنت مشقت کا نتیجہ کم نکلتا ہے
دعا جب ماں کی شامل ہو تو پھر زمزم نکلتا ہے
کہیں پر بھی سنبھلنے کی یہ مہلت ہی نہیں دیتا
کنار وقت سے ہر حادثہ اک دم نکلتا ہے
محبت کے سفر میں جب کہیں پر موڑ آ جائے
سنا یہ ہے وہیں سے ہجر کا موسم نکلتا ہے
سفر کا مرحلہ جو ہو جہاں پر لکھ دیا جائے
اسی منزل پہ آ کر زندگی کا دم نکلتا ہے
بہت کمزور ہوتا ہے کہیں پر خون کا رشتہ
کہیں اک کاغذی رشتہ ہی مستحکم نکلتا ہے
یہ کیسی وادئ غربت سے وابستہ ہوئے ہم لوگ
جہاں سردی میں سورج بھی بہت کم کم نکلتا ہے
رخسار ناظم آبادی
No comments:
Post a Comment