کہانی
وقت کی کہانی بھی
بس عجیب سی ہی ہے
کیسے یہ گزرتا ہے
جا کے پھر نہیں آتا
ہے بس ایک دریا سا
یا ہے ابر باراں سا
یا ہے پھر بہاروں سا
پھولوں کی قطاروں سا
تتلیوں کے پر جیسا
شام کی شفق جیسا
اور کچھ دھنک جیسا
یا کبھی ہے بارش یہ
موسموں کے رنگ جیسا
یا پھر ان کے سنگ جیسا
جو کہ چھوڑ جاتے ہیں
ہم کے بس سمجھتے ہیں
عمر بھر کے ناطے ہیں
پر جو وقت گزرے تو
تب سمجھ میں آتا ہے
کوئی سنگ نہیں رہتا
مختصر سے ناطے ہیں
وقت کی کہانی بھی
بس عجیب سی ہی ہے
کیسے یہ گزرتا ہے
جا کے پھر نہیں آتا
تسنیم مرزا
No comments:
Post a Comment