Monday, 27 March 2023

پچھلی رات کا تاوان ادا کر کے

 پچھلی رات کا تاوان ادا کر کے

نیند مجھ میں، ابھی لوٹی ہی تھی

گلی میں جھانکتی کھڑکی سے

نئی موٹر کار کا زوں زوں کرتا ایکسیلیڑر

نو دولتیے کی داستاں سُنانے لگا

نیند حرام ہوئی

خیال دُھوئیں میں کھانستے ہوئے

دروازہ کھول کر فرار ہو گئے

شور کے نوکیلے پتھر

زہن پہ آسمانی بجلی کی صورت اُترے

قلب زخمی پرندے کی مانند

دیواروں میں پھڑ پھڑانے لگا

زندگی پہلے سے کہیں ذیادہ، بدذائقہ ہو گئی

با اختیار نائب

بے بسی کی چُوں چُوں کرتا

کچھوے کی طرح

اپنے خول میں سِمٹنے لگا


فرح دیبا اکرم 

No comments:

Post a Comment