ننگا ناچ
دور کہیں جب رات گئے اک کوٹھے پر مجرا کرتے کرتے
تھک کر عورت گر جاتی ہے
اس کے بعد وہاں ہوتا ہے ننگا ناچ
بند کمرے میں دو عاشق اک بیج محبت کا بوتے ہیں
اس بیج سے بننے والا پودہ جڑیں نکلنے سے پہلے ہی
کاٹ کے کچرے کی ڈھیری میں پھینک آتے ہیں
اور اس ڈھیری پر کتے ناچتے ہیں
کمسن غیر مکمل لاشہ چیرتے پھاڑتے بھوکے کتے
اور ان کتوں کا ننگا ناچ
چودھری جی کا ڈیرہ ہے یہ
رات ابھی تک باقی ہے کچھ
جلدی میں لگتا ہے سب کچھ
نیم برہنہ حالت میں کوئی ادھر پڑا ہے
چیخ رہا ہے؛ جانے دو
وقتِ سحر ہے؛ جانے دو
چودھری جی فرماتے ہیں؛ چپ کر لڑکی
مجھ کو تجھ سے زیادہ جلدی ہے
آخر جماعت کے ساتھ نماز تو میں نے بھی پڑھنی ہے
اور آسمانوں میں گدھ ناچ رہے ہیں ننگا ناچ
قاری صاحب مسجد کے ممبر پر بیٹھے چیخ رہے ہیں
شرم کرو، کچھ حیا کرو
پردہ کرنا فرض ہے سب پر
بد نظری بھی جرم بڑا ہے
اور پسِ منظر میں قاری صاحب ہیں
کم سن بچے پڑھنے آتے ہیں جو ان کے پاس
ان کے ساتھ کیا میں کہوں اب
ناچ ہے یارو ننگا ناچ
عاصم رشید
No comments:
Post a Comment