بھوک کا مارا ہوا تھا
اے کمینے پیٹ! میں نے
خواب گروی رکھ دئیے
میں وہ مفلس ہوں کہ جس نے
ہیرے جیسے قیمتی اپنے
ہاتھ گروی رکھ دئیے
جن پہ مجھ کو ناز تھا
وہ ادائیں وہ کلا
وہ ٹھاٹھ گروی رکھ دئیے
غربت تیرا ناس ہو
تجھ کو مٹانے کے لیے
سب ساتھ گروی رکھ دئیے
ثمین بلوچ
No comments:
Post a Comment