عجز سے رتبہ بڑھا وہ تِرے شیدائی کا
رشک خورشید بنا داغ جبیں سائی کا
کہتے ہیں جس کو قیامت ہے کرشمہ تیرا
حشر کیا چیز ہے مجمع ہے تماشائی کا
آئینہ خانے میں جاتے ہو سنورنے کے لیے
دیکھو دعویٰ نہ غلط ہو کہیں یکتائی کا
مسجد و کعبہ میں ڈھونڈوں کہ حریمِ دل میں
کچھ ٹھکانہ بھی ملے اس بتِ ہرجائی کا
جوشِ وارفتگئ عشق وہ سن کر بولے
قیس پر سایہ ہے شاید کسی سودائی کا
قیس آروی
ضمیرالحق
No comments:
Post a Comment