کتنا دلکش خیال بنتا ہے
دودھیا ہو رہا ہے منظر یہ
ہاتھ میں چائے کی پیالی ہے
درمیاں بھاپ کی حسین لپک
ساتھ تم اور شام سردی کی
کتنا دلکش خیال بنتا ہے
ایک چادر کو آدھا آدھا لیں
تھوڑا تھوڑا قریب ہو جائیں
میری آنکھوں پہ تیری پلکیں ہوں
عطر و عنبر صنوبری لمحے
کتنا دلکش خیال بنتا ہے
بارشوں کی ہو رم جھمی آہٹ
میرے شانے سے شال ڈھلکی ہو
تیری بانہوں کا چھاتا ہو جائے
بھیگ جائے جو سارا منظر ہی
کتنا دلکش خیال بنتا ہے
سبز وادی کی دلکشی میں ہم
بات سرگوشیوں میں کرتے ہوں
دیکھتے ہوں نہ ایک دوجے کو
تیرے کاندھے پہ میرا آنچل ہو
کتنا دلکش خیال بنتا ہے
الجھی الجھی ہو کان کی بالی
کسی کالر سے لپٹی لپٹی ہو
شرمگیں روپ چھائے جاتا ہو
ہو شرارت کسی کی آنکھوں میں
کتنا دلکش خیال بنتا ہے
دلشاد نسیم
No comments:
Post a Comment