عجیب دن ہیں
عجیب دن ہیں
تمہاری دوری نے ایسے عقدے بچھا دئیے ہیں
کہ جن کے کُھلنے کی ہر جہد میں میں اپنی سانسیں گنوا رہا ہوں
میں اپنے ہاتھوں کو زخمی کر کے
تمہاری پوروں کا لمس کیسے مٹا رہا ہوں
عجیب دن ہیں کہ دائیں کندھے پہ تیری خوشبو کا بوجھ لے کر
نہ جانے کتنے برس جیوں گا
مجھے گلے سے لگائے جو بھی
میں بایاں کندھا ملا رہا ہوں
کبھی جو سورج رہا ہے میرا
وہ بلب زیرو کا ہو گیا ہے
کبھی تکلف کبھی مروت کی آڑ میں
جو محبتوں کی حسین خیرات بانٹتا ہے
مگر توجہ طلب ہے یہ بھی
وہ ایک شاعر کی بھوری آنکھیں
تِرا مکمل جہان تھیں جو
کہ ان کو دیکھے بنا بھی دیکھو
گزر گئے ہیں ناں دن تمہارے
مگر وہ آنکھیں تِری بصارت سے ہو کے محروم بجھ گئی ہیں
تِری سماعت کی آبیاری سے پل رہی تھیں جو چند نظمیں
وہ مر گئی ہیں
علی ادراک
No comments:
Post a Comment