Wednesday, 29 March 2023

صبر ہے رخت سفر جانے دو

 صبر ہے رخت سفر جانے دو

جائے گا لینے ثمر جانے دو

جتنا مشکل بھی ہو رستہ اس کا

جتنا لمبا ہو سفر جانے دو

ساعتیں زندگی کی تلخ سبھی

کس طرح کی ہیں بسر جانے دو

ہم کہانی میں ملا ہی لیں گے

تم حقیقت میں بچھڑ جانے دو

ہم نہیں لوٹنے والے اب کے

اب رہیں گے نہ اِدھر جانے دو

ہم جو سچے تھے کبھی وعدوں میں

اب کے ہم کو بھی مُکر جانے دو

وہ جو صدیوں سے کھڑا تھا جم کر

کتنا بوڑھا تھا شجر جانے دو

جانتی ہوں جو چھپا رکھا ہے

سب تمہارا ہے مٙکر جانے دو

روکتے کیوں ہو جانے والوں کو

جا رہے ہیں وہ جدھر جانے دو

میرا دعویٰ ہے پلٹ آئیں گے

جا رہے ہیں تو جگر جانے دو

تیرے ہر ظلم کا بدلہ میں بھی

لے تو سکتی ہوں مگر جانے دو


ارم شفیق

No comments:

Post a Comment