صبر ہے رخت سفر جانے دو
جائے گا لینے ثمر جانے دو
جتنا مشکل بھی ہو رستہ اس کا
جتنا لمبا ہو سفر جانے دو
ساعتیں زندگی کی تلخ سبھی
کس طرح کی ہیں بسر جانے دو
ہم کہانی میں ملا ہی لیں گے
تم حقیقت میں بچھڑ جانے دو
ہم نہیں لوٹنے والے اب کے
اب رہیں گے نہ اِدھر جانے دو
ہم جو سچے تھے کبھی وعدوں میں
اب کے ہم کو بھی مُکر جانے دو
وہ جو صدیوں سے کھڑا تھا جم کر
کتنا بوڑھا تھا شجر جانے دو
جانتی ہوں جو چھپا رکھا ہے
سب تمہارا ہے مٙکر جانے دو
روکتے کیوں ہو جانے والوں کو
جا رہے ہیں وہ جدھر جانے دو
میرا دعویٰ ہے پلٹ آئیں گے
جا رہے ہیں تو جگر جانے دو
تیرے ہر ظلم کا بدلہ میں بھی
لے تو سکتی ہوں مگر جانے دو
ارم شفیق
No comments:
Post a Comment