ابن الوقت، انا کے قیدی، بے حس تھے، ہرجائی تھے
اپنے بھائی بالکل حضرت یوسف والے بھائی تھے
رزق تو ایک بہانہ ٹھہرا، دُکھ تھا جھوٹے رشتوں کا
آج مقفّل چھوڑ دئیے ہیں وہ گھر جو آبائی تھے
اس کے بعد تو ان آنکھوں میں نور کا بُجھنا واجب تھا
رُوٹھ گئے وہ سارے منظر جو میری بینائی تھے
بھید کُھلے تھے دو عالم کے ہم سرمست فقیروں پر
دل کی آنکھیں کھولنے والے کچھ لمحے مولائی تھے
ایک الگ دنیا ہے اوپر جس کا کوئی انت نہیں
وقت یہاں کا بہتا جھرنا لوگ یہاں پرچھائی تھے
چُپ کے شور میں ہم سے شاعر اٹھے تھے اعجاز سدا
ہم نے حق کی بات کہی تھی، ہاں ہم ہی سودائی تھے
علی اعجاز تمیمی
No comments:
Post a Comment