دلوں کے باب میں لکھا تھا قاعدے کی طرح
زیاں سمیٹتے رہیۓ گا فائدے کی طرح
وہ گل بدن ہوا رقصاں تو پھر کُھلا ہم پر
کسی گلاب کے منظوم ترجمے کی طرح
عجیب حسن تھا آرائیشوں سے ماند پڑا
وضاحتوں سے بگڑتے معاملے کی طرح
ادھر ہی رقص کیا اور ادھرہی مر بھی گئے
دِیے کی لو پہ گئے ہم گئے ہوئے کی طرح
ہمارے بیچ کوئی دوسرا نہیں تھا کبھی
پھر ایک دن وہ ملا مجھ سے دوسرے کی طرح
احمد سلمان
No comments:
Post a Comment