فقیر زادی
میں اپنا سب کچھ لُٹا چکا ہوں
میں تیرے کاسے پہ اپنا کاسا
اُلٹ کے دُنیا بنا چکا ہوں
فقیر زادی
میں آج تک جس ادھُورے پن کی مسافتوں میں
سیاہ سنگلاخ راستوں پر
بھٹک رہا تھا
میں جن خُداؤں کے آستانوں
پہ آج تک سر پٹک رہا تھا
انہیں انہی کی خموشیوں نے نِگل لیا ہے
پر اس سے پہلے کہ یہ خموشی
مجھے بھی ڈستی
مجھے بھی کھاتی
کہیں سے تُو نے مجھے صدا دی
تِرا بھلا ہو فقیر زادی
عمار اقبال
No comments:
Post a Comment