ہم مریدوں کو یوں مراد ملی
وہ نہیں، صرف اس کی یاد ملی
نارسائی کو ہجر کہتے رہے
اور اس بات پر بھی داد ملی
پیڑ پر شاخ پہلے آئی تھی
جو ہمیں روشنی کے بعد ملی
اک دریچے میں چاند آتا تھا
اک گلی تھی جو شاد باد ملی
باپ کا دکھ ملا ہے بیٹی کو
اور بیٹے کو جائیداد ملی
مرثیے کا مشاعرہ تھا ندیم
وہ بہت خوش تھا اس کو داد ملی
ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment