سبھی پہ یکساں کُھلے شرطیہ نہیں ہوتا
کسی بھی شعر کا اک زاویہ نہیں ہوتا
اکیلے پن کی سیاحت بھی کارِ وحشت ہے
کہ دشت کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا
مِرا سلوک برابر ہے خاص و عام کے ساتھ
مِرے ورق پہ کہِیں حاشیہ نہیں ہوتا
سوال اٹھنے دو قبل اس کے انگلیاں اٹھیں
کہ جستجو سے کوئی دہریہ نہیں ہوتا
کسی کو کیا کروں تبلیغ میں محبت کی
کوئی بھی صدقہ یہاں جاریہ نہیں ہوتا
ہماری آنکھ کبھی خشک ہی نہیں ہوتی
یہ محکمہ کبھی دیوالیہ نہیں ہوتا
حارث جمیل
No comments:
Post a Comment