کمال فن ہے
چمکتی آنکھوں میں درد بھر کے
ہر ایک آنسو کو ضبط کر کے
سلگتے خوابوں کی راکھ لے کر یوں اپنی آنکھیں اجال رکھنا
کمال فن ہے
بڑی سہولت سے سرخ آنکھوں کی سرحدوں تک
فشارِ خوں کو سجا کے رکھنا، ہنر ہے جاناں
زباں کے پتھر اچھالتے ہیں یہ شہر والے تو ایسے عالم میں
کِرچیوں کو بچائے رکھنا
حسین چہرے پہ مسکراہٹ سجائے رکھنا
سجا کے لب پر یہ سرخ لالی
خود اپنے زخموں پہ مسکرانا کمال فن ہے
ملال و وحشت سے ٹکڑے ٹکڑے
شکستہ تر دل کے آئینے میں
سیاہ زلفوں کے پیچ و خم کو
سنوار لانا کمال فن ہے
حسین لڑکی تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے
کہ تم محبت میں بیوفائی کے سب عذابوں سے آشنا ہو
مگر اداسی کا استعارہ
کہ ایک آنسو بھی چشمِ خوش میں لگے ستارہ
ہنر تمہارا
حسین لڑکی
تمہارا اسلوب کہہ رہا ہے
تمہیں محبت کی نوحہ خوانی پہ دسترس ہے
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment