عارفانہ کلام، حمد، نعت، منقبت
سچ کہتا ہوں فطرت کا یہی وردِ لبی ہے
محتاج جہاں سارا ہے اللہ غنی ہے
دنیا جسے دعوئ صد بخیہ گری ہے
زخموں کی یہ سوغات اسی نے مجھے دی ہے
گنجائشِ دیوانۂ الفت نہیں اس میں
محدود بہت زمرۂ عالی نسبی ہے
واعظ میں تیری تلخ کلامی کا ہوں عادی
یہ زہر کی ٹکیہ مجھے مصری کی ڈلی ہے
اس ذوق کی شادابی و تطہیر نہ پوچھو
مطلوب جسے منظرِ سروِ چمنی ہے
اک تحفۂ فردوس ہے یہ شعر کا الہام
فطرت شجرِ خلد کی یہ تازہ کلی ہے
فطرت بھٹکلی
محمد حسین فطرت
No comments:
Post a Comment