رُت ہو برہم بھی سرِ دست نہیں لگتا ہے
کچھ درختوں کو سدا بخت نہیں لگتا ہے
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چاہے مناجات لیے
ہم فقیروں کے لیے تخت نہیں لگتا ہے
بات ہی عشق میں بنتی ہے بگڑ جانے سے
یہ وہ مرہم ہے جو بر وقت نہیں لگتا ہے
تم نے اظہارِ تمنا میں ذرا جلدی کی
دل نئے شہر میں یکلخت نہیں لگتا ہے
کوئی تصویر نہ یادیں نہ دعائیں نہ سراغ
یہ تو ہجرت کا مجھے رخت نہیں لگتا ہے
ہاں ذرا بحرِ محبت سے تو خارج ہے مگر
مطلعِ زندگی،۔ دولخت نہیں لگتا ہے
اور اب اس کو تو وحشت بھی نہیں کہہ سکتے
خیر سے دشت مجھے دشت نہیں لگتا ہے
بھا گئی خاص ادا ہی کوئی اس کی، ورنہ
بُھول جانے میں ہمیں وقت نہیں لگتا ہے
دل کے کُرتے پہ تعلق وہ بٹن ہے جو ضمیر
کاج ہو جائے اگر سخت، نہیں لگتا ہے
ضمیر قیس
ضمیر حسن
No comments:
Post a Comment