دوریاں کب ہیں مِری جان چلے آئیں گے
پل میں چنیوٹ سے ملتان چلے آئیں گے
رقصِ کرتے ہوئے کچلیں گے انا پیروں سے
تیرے درویش بصد شان چلے آئیں گے
قاصدا وصل کی امید نہیں ہے لیکن
کوچۂ عشق سے بہتان چلے آئیں گے
ہم چلے جائیں گے دیرینہ روایات لیے
اور نئے دور کے انسان چلے آئیں گے
مت الجھ واعظا ہم سے کہ ہماری خاطر
سب اٹھائے ہوئے قرآن چلے آئیں گے
فلم میں جب بھی تجھے مارنے آئے گا ولن
ہم اسی سِین کے دوران چلے آئیں گے
ہم نے اس موڑ سے آگے بھی اذیت کاٹی
آپ جس موڑ سے حیران چلے آئیں گے
ہیں پرندوں سے مراسم مِرے اعجاز ابھی
اجڑے آنگن میں بھی مہمان چلے آئیں گے
علی اعجاز تمیمی
No comments:
Post a Comment