Sunday, 26 March 2023

ہمارے جیسے ہی لوگوں سے شہر بھر گئے ہیں

 ہمارے جیسے ہی لوگوں سے شہر بھر گئے ہیں 

وہ لوگ جن کی ضرورت تھی سارے مر گئے ہیں 

گھروں سے وہ بھی صدا دے تو کون نکلے گا 

ہے دن کا وقت ابھی لوگ کام پر گئے ہیں 

کہ آ گئے ہیں تِری شور و شر کی محفل میں 

ہم اپنی اپنی خموشی سے کتنا ڈر گئے ہیں 

انہیں سے سیکھ لیں تہذیب راہ چلنے کی 

جو راہ دینے کی خاطر ہمیں ٹھہر گئے ہیں 

سبھی کو کرتے ہیں مل جل کے رہنے کی تلقین 

کچھ اپنے آپ میں ہم اس قدر بکھر گئے ہیں 

نہیں قبول ہمیں کامیابی کا یہ جنون 

یہ جانتے بھی ہیں ناکامیوں پہ سر گئے ہیں 

تو کیوں ستاتی ہے بگڑے دنوں کی یاد کہ ہم 

مصالحت ہوئی دنیا سے اب سدھر گئے ہیں 

ہوائے دشت یہاں کیوں ہے اتنا سناٹا 

وہ تیرے سارے دِوانے بتا کدھر گئے ہیں


سہیل اختر

No comments:

Post a Comment