ہمارے جیسے ہی لوگوں سے شہر بھر گئے ہیں
وہ لوگ جن کی ضرورت تھی سارے مر گئے ہیں
گھروں سے وہ بھی صدا دے تو کون نکلے گا
ہے دن کا وقت ابھی لوگ کام پر گئے ہیں
کہ آ گئے ہیں تِری شور و شر کی محفل میں
ہم اپنی اپنی خموشی سے کتنا ڈر گئے ہیں
انہیں سے سیکھ لیں تہذیب راہ چلنے کی
جو راہ دینے کی خاطر ہمیں ٹھہر گئے ہیں
سبھی کو کرتے ہیں مل جل کے رہنے کی تلقین
کچھ اپنے آپ میں ہم اس قدر بکھر گئے ہیں
نہیں قبول ہمیں کامیابی کا یہ جنون
یہ جانتے بھی ہیں ناکامیوں پہ سر گئے ہیں
تو کیوں ستاتی ہے بگڑے دنوں کی یاد کہ ہم
مصالحت ہوئی دنیا سے اب سدھر گئے ہیں
ہوائے دشت یہاں کیوں ہے اتنا سناٹا
وہ تیرے سارے دِوانے بتا کدھر گئے ہیں
سہیل اختر
No comments:
Post a Comment