جب مجھ پہ تیری آنکھوں کا سارا بیاں کُھلے
اس وقت جانے جان کا خیمہ کہاں کھلے
سر بستہ ہے ہزاروں برس سے جہاں کا راز
بندِ قبا تو کھول کہ مجھ پر جہاں کھلے
الفت دل خراب کو ہے تیرے بام سے
ورنہ تو ایک عرصہ ہوا بیڑیاں کھلے
تجھ کو رہے ہمیشہ محبت سے حسنِ ظن
تجھ پر کبھی نہ میرا حساب زیاں کھلے
کھولی ہے جب سے تُو نے دکانِ رفوگری
جو مندمل تھے زخم کھلے پھر نشاں کھلے
اک عرصہ ہوگیا ہے سنے خیر کی خبر
اک عرصہ ہوگیا ہے تِری چٹھیاں کھلے
جب ذائقہ خراب کرے منہ کا زندگی
مٹی کے شہد مجھ پہ تِرا مرتباں کھلے
فیاض بوستان
No comments:
Post a Comment