Thursday, 30 March 2023

مت سمجھیے کہ پذیرائی بہت ملتی ہے

مت سمجھیے کہ پذیرائی بہت ملتی ہے

سچ کہا جائے تو رُسوائی بہت ملتی ہے

بزمِ احباب میں جانے کا سبب یہ بھی ہے

ایسی تقریب میں تنہائی بہت ملتی ہے

تجھ کو مرہم کی توقع ہے؟ جہاں خلقتِ شہر

رِستے زخموں کی تماشائی بہت ملتی ہے

اے حسیں شخص! ادھر دیکھ کہ بیماروں کو

تیری آنکھوں سے مسیحائی بہت ملتی ہے

کیا ہی اچھا ہے اگر صاحبِ کِردار بھی ہوں

جن کے اشعار میں دانائی بہت ملتی ہے

آنکھ ایسے کسی منظر سے جڑی ہے جس کو

دیکھتے رہنے سے بینائی بہت ملتی ہے

ہم پہ ان کی ہے نظر جن کی توجہ کے طفیل

سنگریزوں کو بھی گویائی بہت ملتی ہے

دوستو! وِردِ زباں رکھا کرو نامِ حسینؑ

اس سے جذبوں کو توانائی بہت ملتی ہے

نسل در نسل صداقت کا صِلہ ہے انصر

مجھ میں جو سطوتِ آبائی بہت ملتی ہے


سید انصر

No comments:

Post a Comment