Saturday, 25 March 2023

عمر ہم لوگ کہاں کاٹتے ہیں

 عمر ہم لوگ کہاں کاٹتے ہیں 

درد کا کوہِ گراں کاٹتے ہیں 

تم بسر روشنی کرتے جاؤ

ہم چراغوں کا دھواں کاٹتے ہیں

عشق وہ بانجھ زمیں ہے جس پر 

سُود بوتے ہیں زیاں کاٹتے ہیں

خود ہی پڑھتے ہیں قصیدے اس کے 

خود ہی دانتوں سے زباں کاٹتے ہیں 

کوئی سازش ہے درونِ پردہ

تیر اپنی ہی کماں کاٹتے ہیں 

زور دریا کی تسلی کے لیے

موجۂ آبِ رواں کاٹتے ہیں

روزِ محشر کی سزائیں بھی فراغ 

ہم گنہ گار یہاں کاٹتے ہیں


اظہر فراغ

No comments:

Post a Comment