عمر ہم لوگ کہاں کاٹتے ہیں
درد کا کوہِ گراں کاٹتے ہیں
تم بسر روشنی کرتے جاؤ
ہم چراغوں کا دھواں کاٹتے ہیں
عشق وہ بانجھ زمیں ہے جس پر
سُود بوتے ہیں زیاں کاٹتے ہیں
خود ہی پڑھتے ہیں قصیدے اس کے
خود ہی دانتوں سے زباں کاٹتے ہیں
کوئی سازش ہے درونِ پردہ
تیر اپنی ہی کماں کاٹتے ہیں
زور دریا کی تسلی کے لیے
موجۂ آبِ رواں کاٹتے ہیں
روزِ محشر کی سزائیں بھی فراغ
ہم گنہ گار یہاں کاٹتے ہیں
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment